افکار مبرم

افکار مبرم

Menu

مضامین

محمد برہان الدین ربانی مصباحی

محمد برہان الدین ربانی مصباحی

شادی کس سے کی جائے؟

‌ کنوارے علما کے لئے آج اس سوال کا صحیح جواب حاصل کرنا عنقا کو تلاش کرنے کے مترادف ہے ۔آپ سوچ رہے ہوں گے ،،بھئی یہ کونسا بڑا مسئلہ ہے؟ مرد عورت سے ہی شادی کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے،، میں کہونگا بالکل عورت سے ہی شادی کرنی ہے مگر اس مخلوق کی متعدد اقسام بھی تو ہیں ۔۔۔ نہیں۔نہیں آپ جلدی نا کریں۔۔۔میں وہی بتانے جارہا ہوں کہ وہ قسمیں کون سی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ تو سنیے ! نہیں۔۔۔۔ بلکہ پڑھیے! ۔۔۔ لیکن تھوڑا انتظار کریں ۔۔۔۔۔پہلے لکھوں تو۔۔۔۔۔خیر۔۔۔اولاً صنف نازک کی دو قسمیں ہیں (1) جاھلہ مطلقہ ۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔اس کا تلفظ کچھ ٹھیک نہیں لگا ۔۔۔۔جاہل مطلق کہنے میں آسانی ہوتی ہے۔۔۔ خیرجانے دیجیے حق بات کڑوی ۔۔۔۔۔نہیں بلکہ۔۔۔۔سخت ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ حق سننے میں کڑوا ہوتا ہو نہ کہ کہنے میں ۔۔۔۔۔ میاں ! آپ کہاں ہیں ؟ ہم نے تو سنا ہے کہ دنیا بتلفظ گاندھی جی ،، طرقی ،، کر رہی ہے ۔۔۔جی ہاں گاندھی جی کا ایک خط سامنے آیا تھا اس میں انہوں نے کہا تھا : میں اردو زبان کی طرقی چاہتا ہوں ۔ خیر جانے دیجیے ان کو نہیں آتی تھی تبھی تو طرقی چاہ رہے تھے۔۔۔۔۔ تو دنیا عروج کے منازل طے کررہی ہے تو الفاظ کی سختی اور نرمی بھی دنیا ہی کا جزو ہیں تو یہ بھی ترقی یافتگان میں سے ہیں۔۔۔۔پہلے حق بات کی سختی اور کڑواہٹ صرف سننے تک محدود تھی اور اب،، کہنے تک ،، ترقی کر چکی ہے۔ ۔۔۔۔بھئی صاف کہوں تو حق بات کہنے کا مطلب ہے ،، اپنے ہاتھوں سے زہر کفر کا کڑوا گھونٹ پیو اور اسلام سے خارج ہو جاؤ ،، ارے توبہ معاذاللہ۔۔۔۔۔ میں شاید راستہ بھٹک گیا ۔۔۔۔۔ اور آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ بغیر سوچے، سمجھے پیچھے پیچھے چلے آرہے ہیں بتانا چاہیے نا۔۔۔۔۔۔اندھی تقلید یا اندھی عقیدت۔۔۔۔دونوں ہی خالی از خطر نہیں۔۔۔فافھم۔۔۔۔ ورنہ ان مشینی دور میں بھی گھوڑوں، گدھوں کی سواری کرتے نظر آئیں گے ۔۔۔۔۔۔ اوہ پھر بھٹک گیا۔۔۔۔اور آپ۔۔۔۔۔۔خیر جانے دیجیے۔۔۔۔ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ ۔۔۔نہیں یاد ہے ؟ تو مجھ سے سنیے ! صنف نازک کی دو قسمیں ہیں (1) جاہلۂ مطلقہ (2) عالمۂ مطلقہ ۔_واضح ہو کہ دونوں ہی بغیر تشدید کے پڑھےجائیں گے_ ۔۔۔۔۔۔ عالمہ کے ساتھ مطلق کا اضافہ احترازاً نہیں بلکہ تعمیماً ہے تاکہ علوم دینیہ مثلاً علم فقہ واصول فقہ اور علم حدیث واصول حدیث علم حفظ قرآن وتجوید قرآن کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ مثلاً تمام ،،لوجیات،، بھی شامل ہوجائیں ۔ ترتیب اقسام میں الٹ پھیر بھی کرسکتے ہیں لیکن یاد رہے پہلے جہل ہوتا ہے بعدہ علم ۔
‌اور پھر ثانیاً دوقسمیں اور بنیں گی (1) عالمۂ علوم دینیہ (2) عالمۂ علوم غربیہ ۔۔۔۔۔۔۔ارے سنیے تو میں جانتا ہوں دوسری قسم آپ کو کچھ کہنے پر مجبور کر رہی ہو گی۔۔۔۔۔۔مگر صبر بھی تو کسی چیز کا نام ہے۔ یہاں کل کو جز کا نام دے دیا گیا ہے۔۔۔۔۔اگر نہیں سمجھ سکے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں ۔۔۔۔بہر حال اقسام تو بہت ہیں ۔۔۔۔۔اب آپ ہی انصاف کیجیے ایک کنوارا عالم بے چارہ جس نے ابھی کچھ بھی نہیں دیکھا وہ حیران و پریشاں نہ ہو تو کیا ہو؟ 
‌ ادھر کسی ایک قسم کو اختیار کرنے کا ارادہ کیا ادھر ہزاروں وسوسوں نے یک بارگی یلغار کردی۔۔۔۔۔بھاگا بھاگا آیا احباب راز داراں کے پاس۔۔۔۔۔۔یار میں بہت پریشاں ہوں کچھ مشورہ دو ۔۔۔۔۔۔دیکھ یار میں خود ابھی لب دریا کھڑا اسی کشمکش میں مبتلا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تو پھر اس سے ہی رجوع کیجیے جو موجوں سے کھیل رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔خیر کئی دیگر احباب سے مشورہ طلب کیا جو اس طلاطم خیزیوں سے گزر چکے تھے مگر ۔۔۔۔۔۔۔نتیجہ صفر۔۔۔۔ ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتا جیسے کہہ رہے ہوں : ،،خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ،،
‌ کہاں جائیں ؟ کیا کریں؟.......اگر جاہلۂ مطلقہ سے کریں تو بچوں کے مستقبل کے متعلق خدشے سر ابھارنے لگتے ہیں کیونکہ : بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوا کرتی ہے،، ۔۔۔۔۔ اور اگر کسی عالمہ کو شریک حیات بنائیں تو۔۔۔۔ ،،شرکة فی کل امر،، گوارا نہیں ۔۔۔ورنہ تو بقول شخصے ،،الرجال قوامون علی النساء ،، کا معنی فوت ہوجانے کا خدشہ ۔۔۔۔۔۔ عالمہ اگر ،،عالمۂ لوجیات،، ہونے کے ساتھ مغربی تہذیب کی دلدادہ ہو تو بے چارے ،،قربانی کے بکرے،، کو اپنی ہی عزت کے لالے پڑجاتے ہیں ۔۔۔۔۔اتنی انگلیاں اٹھتی ہیں کہ شمار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ بلکہ ایک صاحب فرمارہے تھے: اگر کوئی فیشن ایبل گلے پڑجائے تو لاکھ کوششوں کے باوجود انسان ولی نہیں بن سکتا ،، اب ان کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے یہ بتا پانا مشکل ہے۔۔۔۔۔کیونکہ میرا گلا ابھی تک محفوظ ہے۔۔۔ 
‌ ایک صاحب سے راہ چلتے ملاقات ہوئی،کہنے لگے ،، کلیات کا قیام ہی غلط ہے ،، میں نے کہا کیوں خیریت تو ہے؟ بولے ،،تعلیم نسواں کو اہم المہمات قرار دینے والے یہ کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ طالبات نصابی علوم کے سیکھنے کے ساتھ "غیر ضروری علوم " سے بھی آراستہ و پیراستہ ہوجاتی ہیں،، .... اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی مراد کیا ہے ۔۔۔میں تو آج تک چکر میں ہوں۔۔۔۔بارہا ملاقات ہوئی مگر ۔۔۔پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی، خیر جانے دیجیے ، مجھے اپنی بات کہنے دیجیے ۔۔۔۔ لیکن آپ کے سوچنے پر میں پابندی نہیں لگا سکتا۔
‌ وہ۔۔۔۔کہتے ہیں نا کہ ڈر کے آگے جیت ہے،، اور ٹیپو سلطان کا قول: ،، شیر کی ایک دن کی زندگی ،،بکری،، کی ہزار دن کی زندگی سے بہتر ہے،، ۔۔۔۔۔کیا سوچ رہے ہیں؟ جی ہاں کچھ تو گڑبڑ ہوئی ہے مقولے میں ۔۔۔ شاید کسی اور جانور کا تذکرہ کیا تھا ۔۔۔یاد نہیں آرہا ہے ۔۔۔اوہ غالباً گیدڑ۔۔۔۔مگر چونکہ شیر بکری کے قصے زیادہ سنے ہیں نا اس لیے۔۔۔۔خیر بکری بھی کوئی ،، رستم ،، نہیں ہوتی ۔۔۔ارے۔۔۔میں کن باتوں کو لے بیٹھا۔۔۔۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ان کے مثل سارے مقولوں اور کہاوتوں کو ذہن میں بساکر آنکھیں بند کرکے بحر طلاطم خیز میں چھلانگ لگادو۔ پھر جو ہوگا وہ تو دیکھنا ہی پڑےگا... چارہ کہاں؟ ۔۔۔۔
‌ یار سمجھ میں نہیں آتا ایک طرف ،،الرجال قوامون علی النساء،، کا نعرہ مارتے ہیں اور دوسری طرف ان سے ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے،، شیر بکری کو دیکھ کر بھاگتا ہے،، ۔۔۔۔متحیر ناہوں،مثل اپنی جگہ بالکل درست ہے۔۔۔ذرا جنسین کا موازنہ تو کرو سمجھ میں آ جائے گی۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔تو شادی کرلو۔۔۔۔چاہے جس سے کوئی قید نہیں۔۔۔۔بشرطیکہ شادی نا ہوئی ہو ورنہ۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو ۔۔۔اس کے بعد۔۔۔۔ کہتے ہیں نا کہ ،،آخری وقت میں بلی بھی شیر ہوجاتی ہے ،، آپ تو انسان ہیں، ہاں تو پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ۔۔۔۔گردن اگر ٹیڑھی ہو تو سیدھی کرکے۔۔۔۔سینہ 56 انچ کا کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہوئے۔۔۔۔چہرے پر مصنوعی رعب طاری کرکے ۔۔۔۔ بڑے ہی نرم اور پیار بھرے لہجے میں ٬، قو انفسکم واھلیکم ناراً،، پر عمل کیجیے ۔۔۔۔کما قال اللّٰہ و فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔۔ اور ،، اپنے کردار وعمل سے متاثر کیجیے،، جیسا کہ یہی ایک عالم کا شیوہ ہے ۔۔۔۔آپ اپنی وہ ذمہ داری نبھائیے جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سونپی ہے۔۔۔۔،،علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،، ابتدا گھر سے ہوتی ہے ،کما فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،، ۔۔۔۔۔ یار یہ بھی تو ایک تبلیغی کام ہے ۔۔۔۔ اپنی اپنی محترمات کو سدھارو ان شاءاللہ معاشرہ سدھرتا نظر آئے گا ۔۔۔۔ چلتا ہوں یار ۔۔۔۔آپ لوگ خود ہی سمجھدار ہیں۔۔۔۔ کیوں ؟ میں نے آپ کے متعلق غلط دعویٰ تو نہیں کیا؟ ۔۔۔۔سوچ کر بتانا۔۔۔اچھا چلتا ہوں ،،خدا حافظ،،
‌ارے ہاں ۔۔۔۔میں نے تو اپنا نام بھی نہیں بتایا ۔۔۔۔ کہیں بعد میں تذکرہ کرو تو کہو ،،فلانے صاحب کہہ رہے تھے۔۔۔لو یاد کرلو
                     محمد برھان الدین ربانی مصباحی،، 
‌بس اور کچھ نہیں شروع میں راقم الحروف لگا لیجیے دوبارہ،، خدا حافظ،،
محمد برہان الدین ربانی مصباحی

محمد برہان الدین ربانی مصباحی

موبائل فون میں قرآن مجید کی حیثیت۔۔۔۔۔


              قران کریم جب موبائل فون میں ہو تو موبائل فون کو بے وضو چھونا کیسا ہے ؟ تو اس سلسلے میں فقہا کے مختلف اقوال ہیں بعض نے مشروط یا غیر مشروط طریقے سے جواز کا حکم لگایا تو کسی نے مشروط یا غیر مشروط طریقے سے عدم جواز کا حکم لگایا ہے ۔۔۔۔۔۔چونکہ یہ جدید مسائل میں سے ہے لہذا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل کافی غور وفکر کرنے بعد اور باریک بینی سے نتیجہ اخذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
       سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کاغذ پر لکھے ہوئے قرآن اور اپلیکیشن کی صورت میں موجود قرآن میں کیا فرق ہے؟ تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ موبائل فون میں موجود قرآن الیکٹرانک قرآن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواز کے قائلین حضرات نے کہا کہ الیکٹرانک قرآن میں دیکھائی دینے والیں آیات ،، لہریں،، ہیں لہذا ان لہروں کا بعینہ وہی حکم نہیں ہوسکتا جو کاغذ وغیرہ پر مرقوم قرآن کا ہے البتہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ بلا وضو ناچھوا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل قرآن تو وہ کلام ازلی (نفسی) ہے پھر جب اسے کسی چیز پر روشنائی یا دیگر چیز سے نقل کیا گیا تو اس کی ایک صورت سامنے آئی اور اسی کے متعلق فرمان باری تعالی ہے ،،لایمسہ الا المطھرون،، اب یہ صورت چاہے روشنائی کے ذریعے بنے یا کسی لکڑی یا دھات پر کھدائی کے ذریعے بنے یا روشنیوں کے امتزاج سے بنے ان سب پر ،،لایمسہ الا المطھرون،، کا حکم لگنا چاہیے فتفکروا فیہ 
        اس کے بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ بذریعہ قلم و قرطاس وجود میں آنے والے قرآن کو کسی کپڑے یا جزدان وغیرہ سے بلا وضو چھونے کی رخصت ہے تو اس لحاظ سے موبائل فون میں موجود قرآن کی کیا حیثیت ہوگی؟ تو اس کے متعلق عدم جواز کے قائلین حضرات نے فرمایا کہ جب تک قرآن کریم کی آیات اسکرین پر نظر نہیں آرہی ہیں اس وقت تک اسکرین کو بلا وضو چھونے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ فی الحال وہ ایسے ہی ہے جیسے قرآن کریم جزدان کے اندر ہو تو جب جزدان کے اوپر سے قرآن کو بلا وضو چھونے کی رخصت ہے ویسے ہی قرآن کی آیات جبتک اسکرین پر نمودار نہیں تو اسکرین کو بلا وضو چھونے میں حرج نہیں ہاں! جب آیات قرآنی اسکرین پر ظاہر ہو تو اسکرین کو بے وضو چھونا جائز نہیں البتہ اسکرین کے علاوہ دیگر حصوں کو چھونے میں حرج نہیں کیونکہ وہ جزدان کی طرح ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ قرآن کریم اگر جزدان میں ہو یا قرآن کریم کے اوپر کوئی کپڑا وغیرہ ہو تو ان کے اوپر سے بلا وضو چھونے کی اجازت ہے لیکن بالعموم قرآن کے اوپری حصے پر دونوں جانب دو دفتیاں ہوتی ہیں (یعنی جلد سازی کی ہوتی ہے) اور وہ دونوں دفتیاں آیات قرآن سے خالی ہوتی ہیں اس کے علاوہ قرآن کریم کے اوراق کے حاشیے جو قرآن کی آیات سےخالی ہوتے ہیں پھر بھی ان کے چھونے پر عدم جواز کا حکم ہے تو آخر جزدان وغیرہ اور قرآن کی اوپری جلد و حاشیے کے درمیان فرق کیا ہے کہ دونوں کا حکم مختلف ہوجارہا ہے؟ 
        تو لامحالہ یہی جواب دیا جائے گا کہ دونوں میں فرق یہی ہے کہ جزدان یا کوئی کپڑا وغیرہ جس سے قرآن چھوا جائے وہ ایسے چیزیں ہیں جو قرآن سے ملی تو ضرور ہیں مگر ان کو اس سے الگ بھی کردیا جاتا ہے اس کے برخلاف قرآن کی جلدیں یا اوراق کے وہ حاشیے جن پر آیات تحریر نہیں ہوتی ہیں ایسی چیزیں ہیں جس کو قرآن سے الگ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس سے متصل مانا جاتا ہے لہذا شدت اتصال کے باعث ان کا حکم بھی قرآن کے حکم کے مثل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں یہاں پر نظر کرنی چاہیے کہ موبائل فون کی اسکرین پر قرآن کریم نظر آرہا ہے تو اسکرین کو تو چھونا ناجائز ہے ہی لیکن کیا اس کے دیگر اجزاء میں سے ہر ایک جز اسکرین سے الگ کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا اس کا حکم بھی قرآن کی جلدوں اور حاشیوں کے مثل نہیں ہونا چاہیے؟ ضرور ہونا چاہیے اور موبائل فون کے وہ اجزا بھی جو عام طور پر موبائل فون کی اسکرین سے الگ نہیں کیے جاتے ان کا چھونا بھی ناجائز ہوناچاہیے فتفکروا فیہ
           اب اس کے بعد کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی آیات موبائل فون کی اسکرین پر نظر نہ آرہی ہوں تو کیا موبائل فون کو بلا وضو چھو سکتے ہیں؟ تو اس سلسلے میں علما نے فرمایا ہے کہ جب تک قرآن موبائل فون کی اسکرین پر دکھائی نہ دے رہا ہو اس وقت تک موبائل فون کو بلا وضو چھونے کی اجازت ہے کیونکہ قرآن کے لیے موبائل فون بکس کے مانند ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں بھی معاملہ غور طلب ہے بایں وجہ کہ کاغذ وغیرہ پر مرقوم قرآن جو دفتیوں کے درمیان ہو اگر بند کرکے رکھا ہو تو کیا ان دفتیوں کو بلا وضو چھو سکتے ہیں تو جواب ہوگا نہیں کیونکہ قرآن اگرچہ جلدوں (دفتیوں) کے مابین چھپا ہے مگر دفتیاں ایسی چیز ہیں جو قرآن سے الگ نہیں مانی جاتی ہیں لہذا اس کا چھونا بھی بعینہ قرآن کریم کا چھونا مانا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کہونگا اس جواب کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ موجود قرآن موبائل فون کے اندر ہی موجود ہے اگرچہ نظروں سے چھپا ہوا ہے تو موبائل فون کے اجزا بھی انہیں دفتیوں کے مانند ہوگئے جن کو قرآن سے جدا نہیں مانا جاتا لہذا ان دفتیوں کی طرح موبائل فون کو بھی چھونا ناجائز ہوناچاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں ! اگر موبائل فون کے اوپر جو فائبر وغیرہ کا کور لگایا جاتا ہے اس کور کے اوپر سے موبائل فون کو چھونے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ حقیقتاً قرآن کے جزدان کے مثل ہے فتفکروا فیہ
              ہاں ایک اہم شق اور ہے جس پر غور کرنے کی حاجت ہے وہ یہ کہ اگر قرآن کا اپلیکیشن چپ (میموری کارڈ) جس کو نکالا اور لگایا جاتا ہے اس میں ہو تو جب تک قرآن کریم اوپن کرکے اسکرین پر ظاہر نہ کیا گیا ہو اس وقت تک ،،چپ،، تو قرآن کے مثل ہوناچاہیے اور موبائل فون اس ،،چپ،، یا میموری کارڈ کے لیے جزدان کی طرح ہونا چاہیے ہاں جب قرآن اوپن کرکے اسکرین پر ظاہر کردیا گیا ہو تو پورا موبائل فون کا حکم قرآن کریم جیسا ہوگا کہ اس کو بلا وضو چھونا ناجائز ہو جیسا کہ اہل نظر پر وجہ مخفی نہیں ہے۔۔۔
            ضمنا یہاں پر ایک بات اور بھی کہتا چلوں کہ جو لوگ اسکرین پر موجود فوٹو وغیرہ کے متعلق عدم جواز کا موقف رکھتے ہیں ان کے لیے تو یہ کہنے کا قطعاً حق نہیں ہے کہ موبائل فون کی اسکرین پر موجود قرآن کریم ،،لہریں،، ہونے کے باعث قرآن کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ جب وہ لہروں کی شکل میں موجود تصویر پر بعینہ کاغذ پر منقش تصویر کا حکم لگاتے ہیں تو یہاں اس مسئلے میں انہیں تفریق کا کوئی حق نہیں ہے فتفکروا فیہ یا اولی الالباب ! لان فیہ شقيقات اخري بما يبحث 
            *ایک بات یاد رہے کہ مختلف فیہ مسائل جن میں علمائے اہل سنت کی مختلف آرا ہوں اور ان کے الگ الگ دلائل ہوں تو ان میں اگر کوئی اختلاف رائے رکھتا ہے تو نہ اس کی تکفیر کی جائے گی نہ تفسیق*۔ 

*تحریر: محمد برہان الدین ربانی مصباحی*
محمد برہان الدین ربانی مصباحی

محمد برہان الدین ربانی مصباحی

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 1

*از قلم : محمد برہان الدین ربانی مصباحی*

♦کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دل فگاراں کا♦
♦کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھرے گی♦

        بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اگر انہیں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی ہورہی ہے تو ہمیں قوم کے مستقبل کے متعلق پر امید نہیں ہونا چاہیے۔ اور مدارس اسلامیہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں لہذا ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔ لیکن آج مدارس کے قیام کی علت غائی تبدیل ہو چکی ہے ۔ اور اب ان کو ذریعۂ معاش کا درجہ دے دیا گیا ۔ یہیں تک نہیں بلکہ قیام مدارس کے بعد اس میں انجام دی جانے والی خدمات بھی پیشے کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں ۔ 
      یہی وجہ ہے کہ طالبان علوم نبویہ کے دلوں میں طلب علم کا وہ ذوق و شوق اور جوش و خروش باقی نہ رہا جس کا مظاہرہ ہمارے اسلاف کیا کرتے تھے ۔ ماضی کے مقابلے میں حال مختلف اعتبارات سے یقینا ترقی یافتہ ہے کہ آج تحصیل علم کے سلسلے میں خارجی اور داخلی وہ مشقتیں درپیش نہیں جس کا سامنا کرنا پڑتا تھا بایں طور کہ دور دراز کے سفر سے نجات مل گئی کہ بفضلہ تعالی قریہ قریہ مدارس و مکاتب کا قیام عمل میں آچکا ہے قیام کے لیے دار الاقامے طعام کا انصرام وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔لیکن کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم نے ایک پہلو پر توجہ تو دی لیکن دوسرے اور سب سے اہم پہلو کو پس پشت ڈال دیا ہے ؟ ،، *اور وہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے*،، 

        ‌لیکن اس خاص امر کی طرف توجہ دینے کا دوسرا مفہوم *اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے* اور اس بات کو ہر کس و ناکس جانتا ہے لہذا کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا ۔ مگر درد مندان قوم و ملت سے اس غلطی کا ارتکاب ہو ہی جاتا کیونکہ ان کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ *ہمیں اس غلطی خمیازہ ،، لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی،، کے مصداق نسل در نسل بھگتنا پڑے گا* مگر اس قومی و ملی جذبات کی رو میں بہتے ہوئے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قوم کو اس کی بے راہ روی کا خمیازہ بھگتنے سے پہلے ان کو خود ہی حاسدین و مفسدین کے کے سب و شتم کا ہدف بننا پڑے گا ۔ اور یہی سب کچھ *استاذی الکریم ، استاذ الاساتذہ ،حضرت مولانا ناظم علی رضوی مصباحی ادام اللہ تعالیٰ ظلہ و اطال عمرہ* کے ساتھ ہوا ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ! انہیں اپنے ادارے کی فکر لاحق ہوئی تو قوم کے صدقات و خیرات سے پیٹ بھرنے والی جماعت کے ہاضمے خراب ہونے لگے اور بلند ہوتی ہوئی صدائے حق کو لوگوں کی سماعت تک پہونچنے سے پہلے شور شرابے اور لعن و طعن کے ذریعے پست کرنے کی سعی میں لگ گئی ۔ 
         خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ منجھے منجھائے طویل العمر اساتذہ جنہیں اپنی زندگی میں ہزارہا تجربات ہوئے ہونگے اور ان کے لیے صحیح اور غلط کے مابین تمییز چنداں دشوار امر نہیں وہ نکمے اور بد طینت اشخاص کے آلہ کار کیسے ہوگئے؟ *کافی افسوس ہوا اس وقت جب یہ انکشاف ہوا کہ مخالفین کی صف میں وہ ذات بھی ہے جس کی زبان سے بارہا میں نے یہ جملہ سنا تھا : ،، اگر ادارے کا نظام میرے اور مولانا ناظم علی صاحب کے ہاتھوں میں آجائے تو ایک ہفتے کے اندر لائق تحسین انقلاب برپا ہوجائے* ،، 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *حالات سے سمجھوتا کرنا،مہذب انداز میں اپنی شکست تسلیم کرلینے کا دوسرا نام ہے جس کی آڑ میں انسان اپنی شکست کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے*۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں موصوف پر ایک صاحب نے حیرت کا اظہار کیا تھا : حضرت آپ بھی ایسے ہوگئے؟؟؟ جواب ملا تھا : *کیا کریں حالات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے*،، یہ ایک رسمی جملہ برائے استعذار تھا مگر قابل قبول اس وقت ہوتا جب ان کا معاملہ صرف فتنہ پروروں کی ہاں میں ہاں ملانے تک محدود ہوتا *مگر انہوں نے ،،حالات سے سمجھوتے ،، کے مفہوم میں اتنی وسعت پیدا کردی کی بات فتنہ پرور حضرات کی سربراہی تک پہونچ گئی* (الامان و الحفیظ)

‌بین العوام گردش کرتے ہوئے چند جملے سنے گئے جن کو سن کر انتہائی افسوس ہوا کہ مخالفین اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر اور عوام کی حمایت حاصل کرنے اور مولانا ناظم صاحب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے کیسے کیسے گھٹیا قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے ہیں مثلا : *مولانا منصب صدارت کے حریص ہیں_____ مولاناپڑھاتے کم تعلقات زیادہ بنانے میں لگے رہتے ہیں______ گھنٹیوں میں مہمانوں کی مدارات میں لگے رہتے ہیں______ مولانا کے تعلقات بد عقیدوں سے ہیں ______بدنام زمانہ اشخاص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے ______ وغیرہ* اس قسم کی بے بنیاد باتیں عوام کے درمیان پھیلائی گئی ہیں ۔ آپ کہیں گے ایسی باتیں اگر شائع ہیں تو بالکل بے سرو پا نہیں ہوسکتیں کچھ نہ کچھ ان کی اصل ضرور ہوگی لیکن یقین کریں *حزب مخالف ایسے افراد پر مشتمل ہے جو خلاف واقعہ بات ایسی ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں کہ سامع کو مصدقہ خبر میں بھی شک ہونے لگے*۔۔۔۔۔ 
‌ چلئے ان کی جانب سے شائع شدہ ہفوات کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ مولانا موصوف منصب صدارت کے متمنی ہیں اس معاملے میں انہوں نے سراسر غلط اور کذب بیانی سے کام لیا ہے مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ دوران طالب علمی استاد گرامی نے ایک دفعہ کہا تھا ،، *مفتی قدرت اللہ رحمہ اللہ کے ریٹائرڈ ہونے کے بعد مجھے منصب صدارت قبول کرنے کے لیے کہا گیا مگر میں نے صاف انکار کردیا ،، مجھے منصب نہیں چاہئے بلکہ مجھے دین کا کام کرنا ہے* ،، یہ قول آج سے تقریباً چار یا پانچ سال قبل کا ہے اس کے علاوہ ابھی حال ہی میں میں ان سے ملاقات کی غرض سے گیا تو دوران گفتگو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ،، *میرے متعلق یہ بات کہی جارہی ہے کہ میں پرنسپل کے عہدے کا طالب ہوں جب خدا گواہ ہے کہ میرے اندر ایسی کوئی خواہش نہیں* ،، ۔۔۔۔۔۔۔۔ غور کریں ۔۔۔۔ ان دونوں جملوں کو پیش نظر رکھ کر بنظر انصاف فیصلہ کریں کہ مخالفین کے ذریعے عائد کیے گیے الزام کی کیا حیثیت ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
اس علاوہ انہوں نے کہا کہ ،، مولانا پڑھاتے کم تعلقات زیادہ بناتے ہیں ،، ۔۔۔۔۔ ظالموں کو یہ الزام عائد کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی۔۔۔۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں *اگر کسی طالب علم سے اس کے متعلق پوچھا جائے تو۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے گا کہ طلبا کو پڑھانے کے سلسلے میں جتنی امانت داری سے مولانا ناظم علی صاحب نے کام لیا دوسروں نے نہیں لیا* ( واضح رہے کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دیگر اساتذہ میں سے ہر ایک نے تدریس میں تساہلی برتی ہے ) اپنے تمام اساتذہ سے معافی چاہتے ہوئے کہونگا کہ ،، *مولانا ناظم علی صاحب،، کے انداز تدریس اور دیگر اساتذہ کے انداز تدریس میں زمین و آسمان کا فرق ہے* یہ بات میں چند امتیازی خصوصیات کی بنا پر کہہ رہا ہوں جن میں سے چند یہ ہیں _____*اللہ تعالیٰ نے مولانا صاحب کے اندر ایسا مادۂ افھام و تفھیم رکھا ہے جو ہر کس و ناکس کے اندر نہیں پایا جاتا______ دوران تدریس طلبا کے چہروں کو دیکھ کر اندازہ کر لیتے کہ سبق ان کے فھم سے باہر تو نہیں اور ۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو سبق کو مخلتف انداز میں اس وقت تک سمجھاتے رہتے جب تک وہ ذہن میں راسخ نہ ہوجاتا ______ اگلا سبق اس وقت تک نہیں پڑھاتے جب تک کم از کم ایک فرد سے سن نہیں لیتے اگر چہ وقت کم بچا ہو ______ ترجمے سے زیادہ سبق کے مفہوم پر توجہ دیتے اور طالب علم سے وہی سنتے _____ درس روزآنہ بلاناغہ دیتے ______ ان کا حکم تھا میرے پاس کوئی بھی مہمان ہو درسگاہ میں حاضری ناگزیر ہے ______ یہی وجہ ہے کہ میں نے بارہا مہمانوں کی موجودگی میں درس دیتے ہوئے دیکھا ہے لہذا یہ الزام بھی بالکل بے بنیاد ہے کہ مولانا مہمان نوازی میں لگے رہتے ہیں ______ وغیرہ وغیرہ* ۔ میں نے ان حقائق سے آگاہ کیا ہے جس کا اندازہ صرف ایک طالب علم ہی کرسکتا ہے کیونکہ *ایک مدرس کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟ اور اس کی تعلیم پر توجہ کتنی ہے ؟ یہ گھر میں بیٹھ کر یا چائے خانوں میں نہیں جانی جاسکتی* ۔۔۔۔۔۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ مخالفین کی مولانا کی طرف منسوب کردہ الزام کہاں تک درست ہے۔۔۔۔۔؟ 
مولانا سے یہ بات بھی منسوب کی گئی کہ،،۔______ ان کے روابط بد عقیدوں سے ہیں______ *مجھے سن کر حیرت ہوئی جو بات الزام عائد کرنے والے کی جانب منسوب تھی وہی بات آج وہ دوسروں کی طرف منسوب کر رہا ہے* ۔۔۔۔۔۔۔‌۔ جبکہ میری نظر میں مولانا ناظم صاحب کی ذات اس سے پاک ہے اور اس کے برخلاف الزام لگانے والے کو میں نے معاملات میں صحیح العقیدہ پر بد عقیدے کو ترجیح دیتے ہوئے دیکھا ہے اور متعدد مرتبہ بد عقیدے کی دکان پر بیٹھے بھی دیکھا ہے (ضرورت پڑنے پر گواہ بھی پیش کیے جاسکتے ہیں) مگر اس چیز کو میں نے کبھی منفی طریقے سے نہیں دیکھا _____ رہا اس کے جواز اور عدم جواز کا مسئلہ تو اگر اس پر خامہ فرسائی کروں تو کافی تفصیل درکار ہوگی جس کا محل یہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ 
مولانا صاحب کی ایک خصوصیت کو میں نے نوٹ کی ہے کہ ،، *وہ ہر ایک سے اس طرح پیش آتے ہیں جیسے وہ ان کے لیے کافی اہمیت کا حامل ہو ،، اگر چہ وہ شخص معاشرے میں ادنی ہی کیوں نہ ہو* ______اب آپ اس خصوصیت کو مولانا کی خوبی تصور کریں یا خامی کہ وہ سب کے ساتھ اخلاق و محبت سے پیش آتے ہیں وہ ادنی ہو یا اعلی ، معزز ہو یا گھٹیا ______ *برے شخص کا سلوک اگر آپ کے ساتھ برا نہیں ہے یا آپ اس کے کارہائے بد سے لاعلم ہیں تو اس کے ساتھ آپ کا سلوک بھی برا نہیں ہوگا* ( یہی حقیقت ہے) یہی معاملہ مولانا ناظم علی صاحب کا ہے کہ ان کے پاس ہر طرح لوگ آتے ہیں اور ان کو مولانا سے ایسی عزت ملتی ہے جو نہ ہی انہیں کبھی معاشرے میں ملی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی امید ہوتی ہے لہذا ان کا مولانا سے متاثر ہونا لازمی امر ہے _______ والد محترم کی زبانی میں نے سنا فرما رہے تھے: ____ ،، *مولانا ناظم علی صاحب کو اپنے دارالعلوم پر مدعو کیا تو مولانا تشریف لے گئے ، علاقے لوگ ملاقات کررہے تھے اور ملاقات کرنے والوں میں ہر قسم کے لوگ تھے مولانا کے واپس آنے کے بعد ہر شخص یہی کہہ رہا تھا : ،، حضرت نے مجھ پر زیادہ توجہ دی ہے* ،، ____ میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ یہ چیز مولانا صاحب کے لیے کبھی مضر ثابت ہو سکتی ہے اور ہوا وہی ہوا جیسا کہ مخالفین نے اس چیز کو منفی طریقے سے پیش کیا اور مولانا کو اس کے ذریعے غلط ثابت کررہے ہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے پاس اور کوئی شوشہ نہیں ہے جس سے مولانا صاحب کو رسوا کیا جاسکے 
                             *جاری ہے*

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 2



📝 *تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی*📝

♦ *کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دل فگاراں کا*
*کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی*♦

      *______کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حسد و بعض و عناد کی آگ سینے میں دہک رہی ہوتی ہے مگر اظہار عداوت کا کوئی معقول سبب نہ ہونے کے باعث سینے تک ہی محدود رہتی ہے اور اس کا حامل موقعے کی تاک میں رہتا ہے کہ کب کوئی سبب ظاہر ہو اور وہ اپنے سینے کی بھڑاس نکال لے* ______ 
کچھ ایسی ہی مولانا ناظم علی صاحب کے ساتھ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک عام سی چوری کو دوسرا رنگ دے کر بھڑاس نکالی گئی _____مناسب سمجھتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس واقعے کا پس منظر بھی بتادوں تاکہ حقیقت ظاہر و باہر ہوجائے ____میری درجۂ عالمیت سے فراغت کا سال تھا سالانہ اجلاس پوری رات جاری رہنے کے بعد قبل فجر اختتام پذیر ہوا ۔ رات بھر کے جگے ہوئے طلبا بے خبری کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلے گئے جب بیدار ہوئے تو معلوم ہوا کہ ایک کمرے میں چوری ہوگئی ہے ۔۔۔۔غریب بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی پتہ نہیں کب سے پیسے بچا کر گہر جانے کیلیے کرائے کے طور پر رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ آخر کرتے کیا ؟ *چونکہ اس روم کے طلبا مولانا صاحب کی سرپرستی میں اور ان کے درسگاہ والے روم میں رہتے تھے ۔ لہذا شکایت لے کر مولانا صاحب کے پاس پہونچ گیے* انہوں نے ابتدائی سوالات کرنے کے بعد ایک اہم سوال کیا کہ ،، *کیا اس دوران کوئی شخص تمہارے کمرے میں آیا تھا ؟* ،، اکثر نے تو بسبب نیند لا علمی ظاہر کی البتہ دو بچوں نے انکشاف کیا کہ ،، فلاں بچہ کمرے میں آیا تھا اس سے ہم نے کچھ باتیں بھی کی تھیں ،، مولانا صاحب نے اسے بلا کر پو چھا تو اس نے انکار کیا پھر جب ثبوت و گواہ پیش کیے گئے تو اس نے اعتراف کیا مگر چوری سے اب بھی انکاری رہا ۔ مولانا صاحب نے اس سے کہا کہ: ،، چوری کا سامان لاکر میرے سپرد کر دے،، مگر وہ بجائے دوبارہ ملاقات کے اپنا سامان باندھ کر فرار ہوگیا __________ میں نے اب تک کے واقعات تسلسل اور اختصار کے ساتھ بیان کردیے تاکہ پس منظر کو سامنے رکھ کر آپ کو صحیح فیصلہ کرنے میں آسانی ہو ________ اب یہاں سے کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور میرے اپنے خیال کے مطابق فتنے کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے ________ *ہوا یہ کہ اس کے فرار کے بعد مولانا صاحب نے اس استاذ کے پاس فون کیا جو دارالعلوم میں اس کے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے مولانا صاحب نے بذریعہ فون ان کو سارے معاملات کی اطلاع دی اور اسے واپس بلانے کو کہا* ۔۔۔۔ بچہ واپس تو آیا مگر خدا جانے اس کے بعد ،، سرپرست صاحب،، کے ذہن میں یہ بات کیسے آئی کہ : *چونکہ آپ ملزم کے سرپرست ہیں تو مولانا ناظم صاحب اس بچے کو متہم بالسرقہ کر کے آپ کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں (العیاذ باللہ)* _________ مولانا صاحب نے ،، سرپرست صاحب،، کے سامنے اپنے شکوک کی وجوہات بیان کیں اور وہ یہ ہیں : *(١) ملزم کا ان اوقات کے درمیان روم دیکھا جانا (٢) ملزم کا مشکوک طریقے سے روم داخل ہونا (٣) تحقیق و تفتیش کے دوران ملزم کا صاف انکار کرنا (٤) گواہان کو پیش کرنے کے بعد اعتراف کرنا (٥) بغیر کسی خبر کے ملزم کا فرار ہونا*
        کوئی بھی ذی شعور شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مولانا صاحب کی بات کے جواب میں سامع کو معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے تھا مگر ان کا رد عمل عقل کے خلاف رہا ۔۔۔۔۔۔*لہذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ بغض و عناد کی آگ کو ایک سہارا چاہیے تھا اور اس سے بہتر موقع میسر آنا مشکل تھا* ، بس پھر معاملات طول پکڑتے چلے گئے ۔
_______چار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی دوران مولانا صاحب میرے غریب خانے پر بموقع رسم دستاربندی تشریف لائے ہوئے تھے تو میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ تفصیل بیان کرنے لگے درمیان گفتگو انہوں نے ایک ایسی بات بتائی جسے سن کر میں حیرت و افسوس کے سمندر میں غرق ہوگیا کہنے لگے : *اساتذہ جمع تھے اور اسی موضوع پر بحث و مباحثہ ہورہاتھا کہ انہیں میں سے ایک صاحب نے یہ کہہ دیا کہ ،، میں کہتا ہوں چوری ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ آپ نے ایک سازش کے تحت یہ ڈھونگ رچا ہے* ،، آپ اس جملے پر غور کریں۔۔۔ کیا اس سے کھلا بغض و عناد ظاہر نہیں ہو رہا ہے؟ کیا اس سے نیت کا فتور ظاہر نہیں ہو رہا ہے؟ کیا اس سے کھلی عداوت کا اظہار نہیں ہو رہا ہے؟ ________ *اس وقت مجھے پتا چلا کہ وہ تمام لوگ جو مولانا صاحب کی حق گوئی و بے باکی سے خار کھائے ہوئے تھے اور اندر ہی اندر پیج وتاب کھا رہے تھے وہ سب کے سب آج یکجا ہو کر مولانا صاحب کے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں* ۔۔۔۔جی ہاں ! زمانۂ طالب علمی میں ایک بات طلبا کے مابین گردش کرتی ہوئی کانوں تک پہونچی تھی کہ *دیگر اساتذہ اور مولانا صاحب کے مابین نظر نہ آنے والی کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ مولانا صاحب کا جرأت مندی کے ساتھ غلط کو غلط کہہ دینا ہے خواہ غلطی کرنے والا ذی علم ہو خواہ جاہل* ________ ان کی یہ باتیں بے اصل و بے بنیاد نہیں تھیں بلکہ کچھ مثالیں مکمل شواھد کے ساتھ ان کے سامنے تھیں ______میں ان مثالوں کا تذکرہ یہاں نہیں کرونگا کیونکہ وہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے_______*ویسے اس بات سے انکار میں بھی نہیں کرسکتا کہ حقیقت تو تلخ ہوتی ہی ہے البتہ بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جہاں اس کی تلخی انتہا کو پہنچ جاتی ہے وہی مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں حق گوئی میں ایک مثالی حیثیت رکھنے والے اشخاص کی بھی زبانیں بغرض مصلحت خاموش ہوجاتی ہے* ________ الغرض اندر ہی اندر پروان چڑھنے والی عداوت اس معاملے کے بعد باہر آجاتی ہے اور کھلم کھلا عداوت کی ابتدا ہوتی ہے 
 *وہ لوگ جو کبھی پشت پیچھے ہی مولانا صاحب کے خلاف باتیں کرتے رہتے تھے اور مولانا صاحب کے سامنے کھڑے ہوکر مخالفت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے وہ لوگ بھی مخالفین کی صف میں کھڑے نظر آرہے تھے* _____ کچھ لوگوں کو ایک سہارا چاہیے تھا جو انہیں مل چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔ ادارے کی انتظامیہ میں کچھ افراد جن کو کسی نہ کسی جہت سے مولانا کی موجودگی سد راہ محسوس ہوتی تھی وہ بھی مخالفین کے شریک کار ہوگئے اور پھر اس کے بعد ایک پوری جماعت مولانا صاحب کو برطرف کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی اور اس کے لیے یہ ظالمانہ طریقہ اختیار کیا کہ *مولانا صاحب کو طرح طرح سے پریشان کیا جائے اور ذہنی دباؤ اور تناؤ کا ایسا شکار بنا دیا جائے کہ عاجز آکر خود ہی ادارے کو خیرآباد کہہ دیں اور اس مشن میں انہیں خاطر خواہ کامیابی ملی ____ (جی ہاں! ابھی حال میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی جسمانی حالت دیکھ دل رو پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) لیکن_______ انہیں ایک زبردست پریشانی لاحق تھی وہ یہ ہے ،، *چونکہ علاقے میں مولانا صاحب کا ایک وقار ہے اور وہ ایک بڑی حیثیت کے حامل ہیں اہل علم طبقہ ان کے متعلق حسن ظن رکھتا ہے* ________ لہذا انہیں اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں کچھ نہ کچھ ضرور پریشانیوں اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا _____*لہذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے انہوں نے یہ حربہ استعمال کیا کہ عوام و خواص کے مابین مولانا صاحب سے منسوب کرکے ایسی ایسی بے بنیاد باتوں کی نشر واشاعت شروع کردی جن کا اصل اور حقیقت سے کوئی ناطہ نہیں* (جیسا کی آپ نے اس کی مثالیں اس مضمون کی پہلی قسط ملاحظہ فرمائیں) مقصد فقط اتنا تھا کہ عوام وخواص مولانا صاحب سے بدگمان ہوجائے _______ *روح کانپ اٹھتی یہ سوچ کر کہ خداوندا ! یہ کیسا پرفتن وقت آگیا ہے کہ جن کے ہاتھوں میں قوم کی باگ ڈور اس لیے دی گئی تھی تاکہ وہ قوم کو تباہی کے دہانے کی طرف جانے سے بچائیں اور گناہوں میں ملوث ہونے سے بچاکر دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہم کنار کریں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بجائے اس کے وہ قوم کو بدگمانی کے گناہ میں مبتلا کرنا چاہ رہے ہیں* افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے

مبرم

مبرم

 تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 3


*تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی*

🥀 *کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دلفگاراں کا* 🥀
🥀 *کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی* 🥀

                  ایک انسان جب کسی کو ذلیل کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے (اگرچہ عزت و ذلت اللہ کی قدرت کے تحت ہے) تو وہ دشمن پر جھوٹا الزام لگاکر اس کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ فراموش کر دیتا ہے وہ پروردگار سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے جو اس کے بے شمار عیوب کی پردہ پوشی کیے ہوئے ہے اور جب چاہے اس کے عیوب نہفتہ کی پردہ دری کرسکتا ہے 
             _______ *گزشتہ اقساط میں میں نے ذکر کیا تھا حزب مخالف کی تمام تر سازشوں کا مقصود ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ مولانا صاحب کو غلط ثابت کرکے عوام کو ان سے بدظن کر دیا جائے تاکہ ادارے سے مولانا صاحب کو برطرف کرنا سھل ہوجائے اگرچہ اس مقصد کے حصول کے لیے جھوٹ کا انبار ہی کیوں نہ لگا نا پڑے* ۔۔۔۔۔۔۔اور یہی کیا کہ جھوٹے الزامات لگائے اور مولانا کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی اور وہ الزامات ایسے ہیں کہ ان سے مولانا صاحب کا تو دامن بفضلہ تعالیٰ پاک و صاف ہے البتہ تہمت لگانے والا خود اس کی زد میں آ رہا ہے _________انہوں نے جو یہ الزام لگایا تھا کہ مولانا ناظم علی صاحب کے بد عقیدوں اور بد نام زمانہ افراد سے روابط ہیں یہ الزام عائد کرنے سے پہلے اپنے داغدار دامن کی طرف بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں ! *ایک ایسا شخص جس کی شخصیت بین العلماء پلید ہو ، جس کو علمائے اہلسنت گمراہ اور گمراہ گر جیسے القابات سے یاد فرماتے ہوں ، جس کو خود اس کے مادر علمی نے اس کی گمراہیت کے باعث اپنے سے دور کردیا ہو ، سوشل میڈیا پر جس کے گمراہ کن مضامین گردش کرہے ہوں ، جو گستاخ صحابہ جیسے الزامات سے متہم ہو* _______کیا ایسے شخص روابط رکھنے والا اس لائق ہے کہ وہ کسی پر بدنام زمانہ اور بد عقیدہ اشخاص کی ہمنشینی کا الزام لگائے_____؟ جی ہاں! معاملہ فی الواقع ایسا ہی ہے الزام تراشی کرنے والے خود ہی محفوظ نہیں ہیں ________ *چند مہینوں قبل کا واقعہ ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف سے متصف شخص امرڈوبھا میں آیا تو صرف اس سے ملاقات ہی نہیں بلکہ اس کی دست بوسی کے ذریعے تعظیم و توقیر بھی کی گئی* ______جب کہ وہ بدنام زمانہ شخص اپنی خلاف حق سرگرمیوں کے باعث اس لائق قطعاً نہیں تھا کہ اس سے ملاقات کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔میں کہتا ہوں کہ *کیا انہیں اس کی گمراہیت اور گمراہ کن افکار و نظریات کا علم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔؟ کیا سوشل میڈیا پر اس کے مضامین نظروں سے نہیں گزرے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔ ؟ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ملک کے عظیم علما نے اس کے ،،خلاف عقائد حقہ،، نظریات کے باعث برأت کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ اور تو اور وہ شخص خود ان کے پیر و مرشد کے بھی خلاف فتنہ انگیز مضمون لکھ چکا ہے اور عملی تو پر بھی ان کے پیر صاحب کی مخالفت کی ہے بلکہ مسلسل کیے جارہا ہے _____کیا ان کو اپنے پیر و مرشد کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔؟ یا ان کے نزدیک وہ شخص ان کے پیر و مرشد سے بھی زیادہ لائق احترام ہے..........؟* __________ اگر ان ساری باتوں کا علم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ایسا کیا تو اس کا مطلب واضح ہے کہ *وہ بھی اس شخص کے عقائد ونظریات سے اتفاق رکھتے ہیں* اور ایسی صورت میں وہ اس لائق ہیں کی ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو شخص مذکور کے ساتھ ہورہاہے یعنی *تمام علمائے اہل سنت اور عوام اہل سنت ان سے برأت کا اظہار کریں اور مکمل بائیکاٹ کریں* __________ اور اگر وہ یہ کہیں کہ مجھے ان سارے معاملات کا علم نہیں تھا تو پہلے تو ان کی لاعلمی کا عذر ناقابل قبول ہے اور اگر ،، بفرض غلط ،، تسلیم کر لیا جائے تو *کیا وہ بعد علم اپنی اس غلطی کا علی الاعلان اعتراف کرکے اس شخص سے برأت کا اظہار کرنے کو تیار ہیں ...........؟* _________ چلئے ان سارے معاملات سے ہٹ کر اب آپ بلا تعصب اور غیر جانبداری کے ساتھ خود فیصلہ کریں کیا ان کو یہ حق ہے کہ ایک پاکدامن شخصیت ( مولانا ناظم علی صاحب) پر افترا پردازی کرے.......؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا صاحب کا اس سے دور کا بھی ناطہ نہیں۔۔ فافھموا و تفکروا یا اولی الالباب!

جاری ہے
مبرم

مبرم

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 4

تحریر محمد برہان الدین ربانی مصباحی

     ♦ *کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دل فگاراں کا* ♦
     ♦ *کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی*♦

          ع *دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟*
‌ اس مصرعے سے امام اہل سنت نے جو بھی مراد لیا ہو مگر آج میں ان سے معافی چاہتے ہوئے اس مصرعے کو کہیں اور منطبق کرنے جارہا ہوں کیوں کہ اس سے بہتر مصرع فی الحال میری نگاہ میں نہیں جو ان لوگوں پر صادق آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ! ان حضرات کے متعلق کافی کچھ آپ جان چکے ہیں مگر آج میں آپ کو یہ دکھاؤں گا کہ حزب مخالف صرف افترا پرداز اور کاذب الکلام ہی نہیں بلکہ کور چشم بھی ہیں (الا ماشاء اللہ) _________ ٢٠٠٣ء میں مولانا ناظم علی صاحب کی تقرری تنویر الاسلام میں ہوئی اور انہوں نے تقرری کے وقت ہی شرط رکھ دی تھی کہ ،، *وہ چندہ کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے،، اور اہل ادارہ نے ان کی شرط کو تسلیم بھی کیا تھا* مگر یہ مولانا صاحب کی ادارے کے تئیں خیر خواہی تھی کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ادارے کی رسید لے کر چندہ کرنا شروع کردیا اور بفضلہ تعالیٰ ایک کثیر رقم مدرسے کے فنڈ میں ہرسال جمع کرتے رہے ایسا بھی نہیں ہے کہ ادارۂ مذکورہ کے نام پر پہلے سے بنی بنائی فیلڈ میں جاکر چندہ وصول کیا ہو نہیں بلکہ انہوں نے اپنی محنتوں اور کوششوں سے ایک نئی فیلڈ بنائی اور لوگوں کے مابین دارالعلوم کو متعارف کروایا ________ طالب علمی کے زمانے میں بھی یہ بات سننے میں آئی تھی اس کے علاوہ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے بھی اس کا تذکرہ کیا تھا کہ: ،، *مولانا عالمگیر نظامی صاحب کو مستثنیٰ کرکے جملہ مدرسین سے زیادہ چندہ میں ہرسال مدرسے کو دیتا ہوں* ،، _________ یہ بات انہوں نے احسان جتانے کے طور پر نہیں بتائی تھی بلکہ *اس کا تذکرہ انہوں نے اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے کیا تھا جب مخالفین نے ان کے کیے ہوئے چندوں کا انکار کیا اور ان کو دارالعلوم کا بدخواہ گردانا تھا* ________ سمجھ میں نہیں آتا کہ مخالفین کی اس فکر کو کیا نام دیا جائے؟ *غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک ایسا شخص جس پر ادارے کی جانب سے ذمہ داری بھی عائد نہ ہو اس کے باوجود ادارے کی منفعت کی خاطر چندہ کرکے خطیر رقم ادارے کو دے رہا ہو اسے ادارے کا بدخواہ قرار دینا کہاں کا انصاف ہے* ______ میں کہتا ہو مولانا صاحب کا چندہ وصولی کرنا ان لوگوں کی گردنوں پر کبھی نہ اترنے والا احسان عظیم جنہوں نے اب تک ادارے کی رقم سے اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *آپ خود غور کریں کیا مولانا صاحب کے چندہ نہ کرنے پر ادارہ ان سے کسی طرح کا مواخذہ کرسکتا تھا......؟ کیا شرعاً ان کی گرفت ہوسکتی تھی.........؟ کیا آخرت میں وہ اس کے جواب دہ قرار پاتے.........؟ نہیں قطعاً ان سے کوئی سوال نہ ہوتا مگر مولانا صاحب محض خدمت دین کے لیے مسلسل چندہ کرتے رہے اور آج ان کی اس خیرخواہی کو ادارے کی بدخواہی سے موسوم کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔ ،،افسوس ہوتا ہے لوگوں کی بے حسی پر،،۔*
‌۔ آئیے ایک سازش کی طرف اور آپ کی توجہ مبذول کراتا چلوں _______ جی ہاں میں اسے ایک سازش کا ہی نام دونگا ۔۔۔۔۔۔۔ ابھی حال ہی میں الیکشن ہونے والا ہے جس متعلق آپ جانتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے درمیان ہوگا اور اس میں ادارے کے اساتذہ کی ڈیوٹی لگی ہے مگر جملہ اساتذہ کی نہیں بلکہ صرف انہیں کی ڈیوٹی لگی ہے جن کے اسما ادارے کے کلرک کے توسط سے ادارۂ انتخابات( الیکشن کمیشن ) تک پہونچے ہیں اور ان اسما کی فہرست میں مولانا صاحب کا نام بھی شامل ہے یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ *شعبۂ عالیہ میں چار مدرس ہیں جن میں سے انتخابات میں ڈیوٹی انجام دینے کے لیے صرف مولانا صاحب کا نام پیش کیا گیا باقی حضرات کو آزاد چھوڑ دیا گیا آخر کیوں..........؟ کیا ان کی مصروفیات کے مقابلے میں مولانا صاحب کی مصروفیات غیر اہم ہیں........؟* اب مصروفیت کی بات آگئی ہے تو میں یہ بھی بتادوں کہ : ،، رمضان المبارک کے پہلا عشرہ مولانا صاحب کے گھر سے آنے جانے اور انتخابات کے فرائض کی انجام دہی میں گزر جائے گا اور بقول مولانا صاحب ،، *رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ان کے چندے کے سلسلے میں بہت ہی اہم ہوتا ہے اب اس میں دوسری ذمہ داری انجام دینے کے باعث وہ عطیہ دہندگان کے پاس وقت پر نہ پہونچ سکیں گے اور اس کی وجہ سے تقریباً ،،ایک لاکھ پچاس ہزار،، (150000) روپئے کا ادارے کو نقصان پہنچے گا اور جب وہ شوال میں واپس آئیں گے تو یہ بات لوگوں کے مابین غلط طریقے سے پیش کی جائے گی کہ مولانا ناظم صاحب نے چندہ ہی نہیں کیا،، آپ خود ہی غور کریں کہ ادارے کا نقصان کس نے کیا...... ؟* 
          ادارے کے بہی خواہوں سے ایک سوال کرونگا کہ ادارے کا زیادہ خیر خواہ کون ہے؟ آیا وہ جو چار ، پانچ گھنٹے بطور حاضری ڈیوٹی انجام دینے کے بعد دارالعلوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر چلاجاتا ہو ، یا وہ جو چوبیس گھنٹے دارالعلوم میں رہ کر دارالعلوم اور طلبا کی نگرانی کرتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور ہاں جواب دینے سے پہلے ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر ضرور دیکھ لیں _________ *جی ہاں! مولانا صاحب دارالعلوم میں رہ چوبیس گھنٹے ادارے کی نگرانی کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اوقات نماز میں اگر اذان نہ ہوئی ہو تو اذان بھی پڑھ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر امام صاحب نہیں ہیں تو نماز بھی پڑھادیتے ہیں جبکہ یہ سب امور ان کے فرائض میں داخل نہیں ہیں خالصۃً لوجہ اللہ ان تمام امور کو انجام دے رہے ہیں* ________ پھر بھی ادارے کے بدخواہ گردانے جارہے ہیں (لعنۃ اللہ علی الکاذبین ) 
‌ آپ کو دارالعلوم کی اتنی ہی فکر ہے تو چوبیس گھنٹے ادارے میں رہ کر دارالعلوم اور اس کے طلبا کا خیال کیوں نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔؟ *مدارس کے قیام کا مقصد صرف تعلیم نہیں ساتھ میں تربیت بھی ہے آپ سمجھ رہے ہیں کہ چار گھنٹے تعلیم دینے کے بعد آپ اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں ........؟ نہیں ہرگز نہیں آپ گورنمنٹ کی نگاہوں میں تو بری الذمہ ہوگئے ہیں مگر قوم آپ سے سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو آپ کے حوالے ،،تعلیم محض،، کے لیے نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
‌ اہل امرڈوبھا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی خاطر یاد دلادوں مولانا صاحب صرف ادارے ہی کے نہیں بلکہ اہل امرڈوبھا بلکہ قوم و ملت کے بھی خیر خواہ ہیں جیسا کہ آپ نے ماسبق میں ملاحظہ کیا *اس کے علاوہ آپ کو یاد ہوگا کہ مولانا صاحب نے ،، ہلالی مسجد میں تعلیم بالغاں کے لیے قرآن کا درس دینا شروع کیا تھا جس کا اثر یہ ہوا تھا کی دوسرے محلوں سے چل کر لوگ ان کا درس سننے کے لیے ،،ہلالی مسجد،، میں حاضر ہونے لگے تھے حتیٰ کہ دیگر مساجد کے ،،ائمہ مساجد،، اپنی اپنی مسجدوں میں نماز پڑھانے کے بعد فوراً،،ہلالی مسجد،، پہونچتے تاکہ درس میں شرکت کر سکیں* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر افسوس فتنہ پردازوں نے دین کے اس کام میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے کرتے بالآخر بند کروادیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے دارالعلوم کے بغل میں چھوٹی مسجد میں ،،تدریس قرآن،، شروع کیا مگر فتنہ انگیزی کے ذریعہ اس کو بھی بند کروادیا گیا ________
‌ *اب اہل امرڈوبھا سے گزارش ہے کہ اگر دنیا داری سے کچھ فرصت ملے تو تھوڑا سا وقت نکال کر تنہائی میں بیٹھ کر خدارا ایک بار غور ضرور کرنا : ،،آپ لوگوں نے ایک ایسے شخص جس نے اپنے اہل عیال سے دور وطن سے دور آکر آپ درمیان رہ کر آپ کو اپنا سمجھتے ہوئے ہمیشہ آپ کی عاقبت کی فکر میں لگا رہا آپ کی خیر خواہی میں لگا رہا اور آپ نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا کیا خدا کی بارگاہ میں جواب دہی کا بھی خوف نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟*

جاری ہے

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر پانچ


🌷تحریر: محمد برہان الدین ربانی مصباحی🌷


💧چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے💧

💧  ہر سر حرف پہ فریاد  نہایت  کیجے  💧

صبر آزما طویل خاموشی کے بعد ایک بار پھر قلم چیخ اٹھا اگر چہ قلم کی زبان بند کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں تھیں مگر جب دل تڑپنے لگتا ہے تو گونگے بھی چیخ اٹھتے ہیں طرز آغاز سے ہی آپ نے جان لیا ہوگا کہ ضرور درد و الم کی داستان کا کوئی نیا باب لکھا جانے والا ہے _________ جی ہاں وہی پرانا قضیہ۔۔۔۔۔۔ تنویر الاسلام کی مظلوم شخصیت *(خلیفہ تاج الشریعہ علامہ ناظم علی صاحب قبلہ مصباحی)* پر فتنہ پرداز افراد نت نئے حربے آزماتے رہے۔۔۔۔۔۔ زمانہ خاموش تماشائی بنا حالات کا مشاہدہ کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الزام تراشیوں و کذب بیانیوں کو عروج ملتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی شاہدین کی گونگی زبانوں اور ناظرین کی بے حسیوں کے تلے دم توڑتی رہی _____________ بلامبالغہ پوری دیانت و صداقت کے ساتھ کہتا ہوں *دوران طالب علمی میں مجھے فرائض کی انجام دہی کو لیکر استاد گرامی مولانا ناظم علی صاحب قبلہ سے زیادہ حساس کوئی دوسرا نظر نہیں آتا تھا* جس کا تذکرہ میں نے گزشتہ اقساط میں قدرے تفصیل سے کیا تھا اور یہی ساری خوبیاں ان کے مداحوں کی زیادتی کا باعث بنتی تھیں اور یہی خوبیاں دشمنوں کی زیادتی کا بھی باعث بنتی رہیں *لہذا حاسدین نے جھوٹ کا سہارا لے کر ان کی خوبیوں کو خامیوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردیں مختلف طریقوں سے ان کی ادارے کے تئیں خیرخواہی کو داغدار کرنے کی سازشیں رچیں ، یکے با دیگرے ان کو غلط طریقے سے قانونی پھندوں میں پھانسنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے اور کررہے ہیں_________* مگر میں نے ان کے تمام کرتوتوں کو زیر تحریر لاکر اپنا اور قارئین کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ناپاک سازشوں کے نہ رکنے والے سلسلے نے دوبارہ قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا __________ میں نے ابھی کہا کہ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی حضرت سے زیادہ ذمہ داری کا احساس رکھنے والا دوسرا نظر نہیں آتا تھا ، *ایام تعلیم میں درسگاہ میں تشریف لانا اور پہلی گھنٹی سے لے کر ساتویں گھنٹی تک مسلسل تدریس میں مصروف رہنا ان کا شیوہ تھا* حتی کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے دو تعلیمی سال ایسے بھی گزرے ہیں جب دو کتابیں،، بدایۃ الحکمت ،، اورکافیہ ،، حضرت کے پاس تھیں اور پڑھنے کا وقت ساتویں آخری گھنٹی تھی اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اتنا دراز ہوجاتا کہ کھانا چھوٹ جاتا تھا (کیونکہ ساتویں آخری گھنٹی کے فوراً بعد کھنا تقسیم ہونے لگتا تھا) ہم آپس میں مزاحا کہا کرتے تھے کہ ،،پڑھاتے وقت حضرت گھڑی کی طرف دیکھنا بھول جاتے ہیں،،
     آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں یہ واقعہ کیوں بیان کررہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل مخالفین نے ابھی حال ہی میں ایک نیا جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ مولانا ناظم صاحب درسگاہ میں پورا وقت دینے کے بجائے وقت سے پہلے ہی درسگاہ چھوڑ دیتے ہیں ، _______ *جب یہ خبر مجھ تک پہونچی تو میں مبہوت رہ گیا کہ خداوندا ! ان کو ذرہ برابر شرم حیا نہیں،ایسا جھوٹ سن کر شیطان بھی انگشت بدنداں رہ گیا ہوگا۔۔۔*
        خیر آگے چلتے ہیں_______ ان کی شر انگیزی یہی منتہی نہیں ہوتی ہے بلکہ ان لوگوں نے ایسا جھوٹا الزام تیار کرکے ڈی ایم اوکے آفس میں حضرت کے خلاف نظم وضبط کی خلاف ورزی کا کیس کر دیا ،  جب یہ خبر مولانا ناظم علی صاحب کو ہوئی تو انہوں نے از راہ استشہاد طلبہ سے سوال کیا کہ ،،تعلیم کے اوقات کیا ہیں؟،، طلبہ مقررہ وقت بتایا، پھر پوچھا کہ ،،میں کتنی دیر تک پڑھاتا ہوں۔۔۔۔؟،، بچوں نے اقرار کیا کہ حضرت پورا پورا وقت تدریس میں صرف کرتے ہیں ، پھر حضرت نے طلبہ سے اس کے متعلق تحریر مانگی جس میں طلبہ نے اپنی اپنی دستخطوں کے ساتھ اعتراف کیا تھا کہ مولانا ناظم علی صاحب تعلیمی اوقات میں ابتدا تا انتہا درسگاہ میں حاضر رہ کر  درس دیتے رہتے ہیں ____________ *آپ غور کریں۔۔۔۔۔۔ یقیناً طلبہ کے یہ اعتراف نامے مفسدین کے لگائے ہوئے الزام کی قلعی کھول کر رکھ دیتے لہذا اب اس سے بچنے کے لیے تگ ودو شروع کردی اور اس کے گیے انہوں نے ایک اور غلیظ حرکت کی کہ طلبہ کو بلا بلا کر ان سے جبرا ایک تحریر لینی شروع کردی جس کا نفس مضمون یہ تھا کہ،، مولانا ناظم علی صاحب نے ہم طلبہ سے جبرا دستخط لیے تھے،، پہلے تو طلبہ نے ایسا جھوٹا تحریری بیان دینے سے صاف انکار کردیا تھا مگر ان کو اخراج وغیرہ کی دھمکیاں دی گئیں* _______  اپنے وطن سے دور ، اساتذہ کے رحم وکرم پر رہنے والے بچے حاسدین کی دھمکیوں سے کیونکر مرعوب نہ ہوتے ، نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ ان کی مرضی پر راضی ہو گئے *_مگر۔۔۔۔۔ ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ طالبان علوم نبویہ نے محض اخراج کی دھمکی کے زیر اثر اپنا تحریری بیان بدل کر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ان کو مستقبل میں قوم کی قیادت کی عظیم ترین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانی ہے اور اسی کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرنے کے لیے خود کو مدرسے کے حوالے کیا ہے اور قوم کی قیادت کے سلسلے میں بارہا ایسے مواقع آئیں گے جب حق گوئی و بے باکی ان کے عارضی خسران کا سبب بنتی نظر آئے گی اور وہی ان کی آزمائش اور امتحان کا وقت ہو گا تو کیا وہ اس وقت بھی ایسی ہی کم ظرفی کا مظاہرہ کریں گے؟؟؟ اور آج کی طرح اس دن بھی باطل کی زبردستیوں سے مرعوب و خائف ہوکر حق کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر لیں گے؟؟؟ اگر ایسا ہی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن قوم کی ذلت ورسوائی کا تاریخی دن ہوگا ، _______ طلبہ کو خود غور کرنا چاہیے کہ جو لوگ مدرسے اور طلبہ کے تئیں اپنی خیر خواہی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں انہوں نے اپنے مفادات کے لیے طلبہ کا کتنا غلط استعمال کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی خیر خواہی کہ ان سے ایسا کام لیا جارہا ہے جس کی حقیقت عیاں ہوتے ہی دنیا میں کذب بیانی کا ذلت آمیز داغ لگ جائے گا اور قوم کا اعتماد مجروح ہوگا اور آخرت میں دو دو جھوٹ کی وجہ سے رسوائی بھی مسلط کر دی ہوجائے گی ،،ایک جھوٹ تو یہ کہ مولانا ناظم صاحب نے جبرا دستخط لیے ،، اور دوسرا جھوٹ یہ کی مولانا ناظم صاحب وقت مقرر سے کم ہی تعلیم دیتے ہیں،،_* ________ (ایسے خیر خواہوں سے اللہ بچائے)
کجھ جی دار بچوں نے ان کی بے جا دھمکیوں کا اثر قبول کرنے سے انکارکردیا اور ایسا کوئی اقرار نامہ لکھنے سے منع کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ قوم ایسے افراد پر آنکھ بند کرکے بھروسا کرسکتی ہے اور کسی بھی موقعے پر یہ لوگ قوم و ملت کے مفاد  کا سودا نہیں کرسکتے اللہ ایسوں کے سینوں میں چٹان جیسا دل عطا فرمائے (آمین)
_________تادم تحریر حالات ایسے ہی ہیں ، یہ تو ابھی حال کا واقعہ ہے اس کے علاوہ خاموشی کے زمانے میں انہوں نے ایسے ایسے گھناؤنے سازشی جال بچھائے جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان حقائق سے بھی روشناس کراؤں گا۔
تحریر کا مقصد سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ شاہدین کی بے حسی دیکھ کر ان کی طرف سے مایوس ہوچلا ہوں اب ایک امید کی کرن اب بھی چمک رہی ہے کہ ممکن ہے قارئین میں کوئی ایسا ہو جو حق کی آواز کے ساتھ آواز بلند کرنے کا جذبہ رکھتا ہو جو ظالموں کو ان کے کیفرکردار تک پہونچا دے
🔊_کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دل فگاراں کا_🔊
🔊_کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی_🔊

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر چھ


⁦✴️⁩تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی⁦✴️⁩


✳️⁩میں بولتا   ہوں  تو   الزام  ہے   بغاوت    کا⁦⁦✳️⁩

✳️⁩میں چپ رہوں توبڑی بےبسی سی ہوتی ہے⁦✳️⁩

     قسط نمبر ۵ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ مولانا ناظم علی صاحب قبلہ پر مبنی علی الکذب یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ درسگاہ وقت مقررہ سے پہلے چھوڑ دیتے ہیں اور حقیقت حال برعکس ہے (یہاں پر لفظ برعکس معنی رکھتا ہے) جس کو مثال کے ذریعے میں نے واضح کیا تھا ۔
     *یادرہے اس الزام کی بنیاد غالباً لسانی سبقت یا قلمی سہو کا نتیجہ ہے* (اب یہ بتا پانا مشکل ہے کہ وہ سہو مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے ہوا یا یہ سہو رجسٹر کے نگران کی طرف سے قصداً سرزد ہوا درآنحالیکہ رجسٹر غیر محل میں رکھا ہوا ہے) *مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اگر سہو حضرت کی طرف سے ہوا تو نگران پر لازم تھا کہ وہ ڈی۔ایم۔او کے وہاں شکایت درج کرانے سے قبل اس کی قابل تشفی تحقیق کرتا اور حضرت سے وضاحت طلب کرتا اور اگر یہ سہو ان کی جانب سے ثابت ہوجاتا پھر مناسب اخلاقی کاروائی کرنے کا مجاز تھا* مگر۔۔۔۔ یہاں تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آتا ہے جس سے مجبوراً یہ سمجھنا پڑ رہا ہے کہ اگر حضرت سے ہی سہو ہوا ہے تو لازما یہ ایسے کسی موقعے کی تاک میں تھے اور اگر نگران کے قصداً سہو کا نتیجہ ہے تو پھر یقیناً یہ کسی منصوبہ بند سازش کے تحت ایسا کیا گیا۔
           یہاں پر ایک قابل توجہ بات اور بتا دوں کہ مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے تحریری طور پر اس بات کی وضاحت بھی ہوچکی ہے کہ *،،آپ جس چیز کو بنیاد بنا کر مجھے ملزم گردان رہے ہیں وہ لسانی سبقت یا قلمی سہو کا نتیجہ ہو سکتی ہے ورنہ تو آپ نے سی سی ٹی وی کیمرے لگوا رکھے ہیں اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں وقت مقررہ سے کچھ پہلے درسگاہ میں جاتا ہوں اور مقررہ وقت کے بعد ہی باہر نکلتا ہوں،،* اب اس وضاحت کے بعد بھی  حضرت کے خلاف قانونی چارہ جوئی چہ معنی دارد؟؟؟
         اس کے ساتھ ہی میں قسط نمبر ۵ میں مذکور شرمناک حرکت کی طرف پھر توجہ مرکوز کردوں کہ حزب مخالف نے اپنے جھوٹے الزام کی تقویت کے لیے طلبہ کے صداقت سے پر تحریری بیان کو زبردستی تبدیل کرایا اور طلبہ کو جھوٹ بولنے اور لکھنے پر مجبور کیا ________ ان سارے حقائق کے تناظر میں قارئین غور فرمائیں حقیقت حال روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی فافھموا و تفکروا۔
           اب آئیے ،،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے،، کی مصداق ایک کہانی سنئیے .......... حزب مخالف کی طرف سے ایک مضحکہ خیز الزام عائد کیا جارہا ہے کہ مولانا ناظم علی صاحب نے ان لوگوں کو دھمکیاں دی ہیں اور نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں
واہ بھئی.........
     بے خطا تھا حسن ہر جور وجفا کے بعد بھی
       عشق کے سر تا ابد  الزام  ہی  الزام   تھا

ایک کہاوت ہے نا کہ ،،بھاگتا ہوا چور بچنے کے لیے خود بھی چور چور کی ہانک لگاتا بھاگتا ہے،، وہی حال یہاں پر بھی ہے _________ جی ہاں ! دھمکیاں دینے کی پوری ذمے داری حزب مخالف نہایت دیانت کے ساتھ پوری کررہا ہے........ *ایک نہیں بہتری مثالیں مکمل شواھد کے ساتھ موجود ہیں کبھی بذریعہ فون چنگیزی اکڑ کے ساتھ کہا جارہا ہے* ____*،،میری طرف سے بہت سخت جواب آئے گا،،*____ *تو کبھی نوٹس کی صورت میں تانا شاہی جھاڑی جارہی ہے ___ کبھی درسگاہ میں انسانی لباس میں غنڈے بھیجے جارہے ہیں ___ تو کبھی کرائے کے ٹٹو لاکر ادارے کی فیلڈ سے دھمکی آمیز اشارے کیے جارہے ہیں اور الزام مظلوم پر واہ.....*               
                      اپنا الزام میرے سر ڈالا
                      یار تم نے کمال کر ڈالا
جی ہاں ! چند مہینوں قبل کی بات ہے کہ ایک صاحب جو کہ حزب مخالف سے متعلق ہیں دارالعلوم میں تعلیمی اوقات کے اندر تشریف لائے (تعلیمی اوقات کی قید اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ آنے والے جناب جن صاحب سے ملاقات کے لیے آئے تھے انہوں نے تعلیمی اوقات میں غیر متعلق آدمی کے دخول پر پابندی عائد کی تھی) خیر آنے والا شخص اپنی مطلوبہ شخصیت سے ملاقات و مشاورت کے بعد مولانا ناظم علی صاحب کی درسگاہ میں آتا ہے اور حضرت سے لایعنی باتیں کرتے کرتے مقصد اصلی پر آتا ..... پہلے تو اپنی شیخی بگھارتا ہے پھر دھمکیاں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ _____*میں فلاں ( فلاں،،حزب مخالف کی نمایاں شخصیت ہے) کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں حتی کہ اگر قتل کرنا پڑے تو وہ بھی کر گزروں گا _____ اور جاتے جاتے صاف صاف الفاظ میں یہ کہہ گیا کہ _____ مولانا ناظم صاحب آپ کی گردن پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے _____*
         قارئین غور کریں قتل کی دھمکی تو جناب کی جانب سے مل رہی ہے اور الٹا الزام مولانا ناظم صاحب کے سر ڈالا جارہا ہے (خدایا رحم فرما)
           یہ حیوانیت جرم کرتی رہے گی
              شرافت پہ الزام  آتا  رہے  گا

        *ایسی ہی دوسری مثال بھی ہے کہ حزب مخالف کی دوسری گھوٹالے باز فتنہ پرداز شخصیت مولانا ناظم علی صاحب پر اپنے اندر چھپی ہوئی بدمعاشی اور غنڈہ گردی عیاں کرنے کے لیے چند غنڈوں کو لےکر مدرسے کی فیلڈ میں آتا ہے اور وہ سب مولانا ناظم علی صاحب کی طرف خطرناک دھمکی آمیز اشارے کرنے لگتے ہیں اور مولانا ناظم علی صاحب کی تصاویر بھی بناتے ہیں ، (خدا جانے ان تصاویر کا مصرف کیا رہا ہو یہ ابھی بھی صیغہ راز میں ہے لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ وہ تصویریں یادگار کے لیے نہیں تھیں) پھر علاقے کے چند افراد کی مداخلت کی بنا پر انہیں بھاگنا پڑتا ہے..........*
      یہ ہیں اپنی شرافت اور بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے کرتوت اور الزام بے گناہ کے سر .....؟ ارے کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجیے جناب !
        اپنی لغزش کو تو الزام نہ دے گا کوئی
      لوگ تھک ہار کے مجرم ہمیں ٹھہرائیں گے

        *سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مولانا ناظم علی صاحب کا وجود مخالفین کی نظروں میں کیوں چبھ رہا ہے؟* (کسی غیر متعلق آدمی کا سوال) اس سوال کا جواب گزشتہ ابتدائی حالات و واقعات پر نظر دقیق ڈالنے سے حاصل ہوتا ہے کہ *مخالفین کی مخالفت انہیں امور سے شروع ہوئی جن امور کا ہونا ادارے کے کے لیے سود مند تھا مگر..... ساتھ ہی ان میں مخالفین کا ذاتی زیاں اور نقصان نظر آتا تھا اور حضرت ادارے کی خیرخواہی کو مد نظر رکھ کر ان امور کی حمایت کرتے رتے تھے* ........ اب چونکہ مخالفیں ان کی بجا باتوں کا رد کرنے سے رہے ورنہ تو ان کا وہ چہرہ سامنے آجاتا جو چیخ چیخ کر ان کی مفاد پرستی کا اعلان کرتا لھذا انہوں نے اسکیم کے تحت اس وجود کو ہی بے دخل کرنا چاہا جو مستقبل قریب یا بعید میں ان کی بے پردگی کا باعث بن سکتا تھا اور ظاہر ہے حضرت کی غیر موجودگی میں وہ لوگ خود ہی سیاہ و سفید کے مالک ہونگے پھر نہ تو کوئی ان کو ان کے سیاہ کارناموں سے منع کرنے والا ہوگا اور نہ ہی کوئی اعتراض کرنے والا............. اور ان کے اس خفیہ ایجنڈے کی طرف اشارہ جناب کا یہ جواب کررہا ہے جو کسی کے سوال کے جواب میں دیا تھا کہ *____مدرسہ میرا ہے میں جو چاہے کروں____* جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ مدرسہ کسی کے بھی باپ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے کیونکہ ادارے کی موجودہ مقام تک پہونچانے میں قوم کا مال شامل ہے لہذا اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آتی ہے جس سے ادارے کے نظم ونسق یا اس کی تعلیمی ماحول پر منفی اثرات پڑ رہے ہوں تو قوم کو حق حاصل ہے کہ وہ موجودہ کارگزار سے سوالات کرے اور اس کار گزار پر لازم ہے کہ جن کے چندوں سے بنائی ہوئی عمارت میں رہ رہا ہے اس کو تسلی بخش جواب دے تاکہ انہیں اطمینان رہے کہ میری دولت غلط جگہ پر استعمال نہیں ہوئی
         یہ بات یقینی ہے کہ حضرت کے خلاف یہ ساری سازشیں اور مکڑ جال فقط مولانا ناظم علی صاحب کو ادارے سے نکال دینے کے لیے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ حزب مخالف کا وہی شخص جو مولانا ناظم صاحب کو غنڈوں کے ذریعے دھمکانے کی کوشش کررہا تھا اس شخص نے ادارے کے ایک استاد کی درسگاہ میں طلبہ کی موجودگی میں کہا کہ: *____میں نے مولانا ناظم کو اگر نکال نہ دیا تو میرا نام فلاں نہیں____* اس جملے نے صراحت کردی کہ مولانا ناظم علی صاحب کو نکال دینا ہی ان کا ٹارگٹ ہے اور اسی کے لیے اتنے لمبے چوڑے کھڑاگ پھیلائے گئے ہیں اور ذہنی اور جسمانی طور پر مسلسل ٹارچر کیا جارہا ہے اور ٹارچر کرنے کے لیے عوام کی نظروں سے چھپ کر کون کون سی غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں اس کا تفصیلی ذکر کارے دارد ۔۔۔۔۔۔۔۔
         خود اپنے قتل کا الزام ڈھو رہا ہوں ابھی
      میں اپنی لاش پہ سر رکھ کےرو رہا ہوں ابھی

*لیکن ان کے لیے یہ پریشانی سب سے بڑی ہے کہ اگر انہوں نے بجبر و زبردستی انہیں ادارے سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تو انہیں قانون و عوام کی عدالت میں عذر معقول پیش کرنا پڑے گا جو نہ ان کے پاس تھا اور نہ ہوگا (ان شاءاللہ) لہذا انہوں نے حضرت پر ایسے حملے شروع کیے جن سے گھبرا کر خود ہی مستعفی ہو جائیں یا پھر اپنا تبادلہ کرالیں مگر مولانا ناظم علی صاحب نے ان کی مخالفتوں اور حملوں کا حتی الوسع دفاع کرتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی کی طرف توجہ دی* _______ مگر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مخالفین کو مقصد برآری کی جلدی ہے لہذا اب انہوں نے مولانا ناظم علی صاحب پر ایسے اوچھے حملے شروع کر دیے جس کے اصلی مقاصد دیکھنے اور سننے والے کی نگاہ سے مخفی ہوتے ہیں اور ایسے بے اصل و بے بنیاد الزامات کا سہارا لیا گیا جس سے نہ صرف یہ کہ مولانا ناظم علی صاحب پریشان ہوجائیں بلکہ ان کی مدرسے سے متعلق خیرخواہی پر بھی سوالیہ نشان آجائے ساتھ ہی عوام کے درمیان ان کی شبیہ بھی خراب ہو جائے اور ان کی بے داغ شخصیت داغ دار ہوجائے نیز ان کی عوامی مقبولیت بھی خطرے میں پڑ جائے .......... اور ان لغو الزامات کے متعلق میں نے پچھلی اقساط میں ذکر کیا ہے مثلاً چندے کو لےکر الزام ، مدرسے کی ذمے داری سے متعلق الزام ، تعلیمی و تدریسی فرائض کی انجام دہی سے متعلق الزام وغیرہ وغیرہ _________ *قارئین کے لیے مقام تفکر و تدبر ہے کہ اگر یہ بے بنیاد و بے اصل الزامات فریب دہی اور دھوکا دھڑی کے سہارے کسی قدر ثابت ہوجائیں تو ان کو دو فائدوں میں سے ایک یقینی طور پر حاصل ہوجائے وہ یہ کہ یاتو عوام جوش میں آ کر خود ہی مولانا ناظم علی صاحب سے استعفے کا مطالبہ شروع کر دیتے یا کچھ نہیں تو مخالفین کی ایسی کسی کاروائی پر اعتراضات و سوالات نہیں کرتے* __________ بہر حال دونوں ہی صورتوں میں ان کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں عوامی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا _______ اور رہا قانونی جواز تو اس کے لیے حزب مخالف نے ایسی شرمناک و رذیل حرکت کا مرتکب ہوا ہے کہ جس کو بالعموم عوام اور بالخصوص علمائے کرام کبھی بھی معاف نہیں کرسکتے وہ یہ کہ *مولانا ناظم علی صاحب پر جھوٹا دہشت گردی کا الزام عائد کرنے کی ناکام کوشش کی آہ....... ان نام نہاد خیرخواہان قوم و ملت نے یہ تک نہ سوچا کہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ ایسی کریہہ اور گھٹیا حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کا خمیازہ نہ صرف ادارے کو بلکہ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے اور علمائے کرام کی پاکیزہ جماعت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو سکتا ہے* (اللہ سمجھ عطا فرمائے) ________ بہر صورت اس مبنی علی الکذب الزام کا فائدہ اور نتیجہ اظہر من الشمس ہے وہ یہ کہ اب قانونی طور پر نہ صرف ان کو ہمیشہ ہمیش کے لیے بے دخل کردیا جاتا بلکہ قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ........... (اللہ سلامت رکھے)
          جب ان سارے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو لامحالہ سوچنا پڑتا ہے کہ یقینا حزب مخالف مولانا ناظم علی صاحب کی مخالفت میں کسی بھی حد سے گزر سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ہو نہ ہو وہ حادثہ جو چند مہینوں قبل پیش آتے آتے رہ گیا تھا اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ان اختلافات سے ضرور ہے (اگرچہ مکمل شواھد نہیں مل سکے جن بنیاد پر اس کو کسی فرد خاص سے متعلق کیا جا سکے مگر قرائن شاھد ہیں کہ وہ واقعہ کسی سازش کا نتیجہ ضرور ہے) ______ *دراصل ہوا یہ کہ مولانا ناظم علی صاحب روم میں موجود تھے کہ اچانک باہر سے کسی عورت کی آواز سنائی دی جو مولانا ناظم صاحب کے روم کے متعلق کسی طالب علم سے پوچھ رہی تھی حسن اتفاق کہیے یا  اللہ رب العزت کا فضل خاص کہ اس وقت حضرت کی بارگاہ میں قصبے کے کچھ ذمہ دار اشخاص بھی موجود تھے جب انہوں نے کسی عورت کی آواز سنی تو ان میں سے ایک صاحب نے  دروازے سے جھانک کر دیکھا اور وہ اس عورت کو پہچان گئے لہذا انہوں نے عورت کو ڈانٹ کر بھگایا اور وہ عورت بغیر کسی سوال جواب کے رفو چکر ہو گئی اس عورت کے جانے کے بعد صاحب مذکور نے بتایا کہ وہ عورت بدنام زمانہ اور مشہور فاحشہ ہے جس نے اس پہلے بھی کسی کو بدنام کرنے لیے اجرت پر ایسے کام کرتی رہی ہے* (اللہ کی پناہ) ______ چھان بین کے دوران پتہ چلا کی وہ عورت ایک روز پہلے بھی آئی تھی اور دارالعلوم کے گیٹ پر کسی سے مولانا ناظم علی صاحب کے روم نمبر کے متعلق دریافت کیا تھا مگر اتفاق کہ حضرت اس وقت موجود ہی نہیں تھے_______
           اب میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس خوفناک و شرمناک قریب الوقوع حادثے کا ذمے دار کون ہے؟ اور کس نے اس کی پلاننگ کی؟ کس کے توسط سے اس عورت نے یہ مذموم اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت کرنے کی کوشش کی؟ *لیکن اتنا تو میں ضرور کہوں گا کہ جب دارالعلوم میں دونوں جانب گیٹ لگے ہوئے ہیں اور وہ بند بھی رہتے ہیں تو آخر وہ عورت اندر کیسے داخل ہوئی؟ کیا وہ اتنی ہی پاور فل ہے کہ جب چاہے دارالعلوم میں گھس کر کسی بھی استاذ کے کمرے میں داخل ہوجائے؟ یا وقتی طور پر اسے با اختیار بنایا گیا؟ درآنحالیکہ گیٹ لگوانے کی غرض و غایت ہی غیر متعلق افراد کا داخلے پر روک لگانا ہے*
         غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر مولانا ناظم علی صاحب کے روم میں علاقے کے چند افراد موجود نہ ہوتے، اور اس عورت کو ایک بار روم کے اندر داخل ہونے کا موقع فراہم ہوجاتا تو حالات کتنا سنگین رخ اختیار کر لیتے کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا ، اور مولانا ناظم علی صاحب کی قرب و جوار میں کیا حیثیت ہوتی کچھ نہیں کہا جا سکتا_______ اور ایسے معاملات میں لوگ تحقیق و تفتیش کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے اور ساری خطائیں ایک ہی کے سر مونڈھ دی جاتی ہیں (الأمان والحفیظ)
        ان حالات کے پیش نظر اہل قریہ سے میری بس اتنی سی گزارش ہے کہ آپ سے کچھ ہوسکے یا نہ ہو سکے لیکن اتنا ضرور کرنا کہ کبھی ایسے حالات ہوں تو خدارا تحقیق و تفتیش ضرور کرنا نیز میں یہ بھی بتا دوں کہ خدا نخواستہ مولانا ناظم علی صاحب کو کوئی ناگہانی حادثہ پیش آئے تو اسے محض اتفاق پر محمول نہ کیا جائے بلکہ ذمے دار کا پتہ لگایا جائے فقط

🌻کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دلفگاراں کا🌻


🌻کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی🌻 

شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر سات


✍️⁩تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی✍️⁩


✳️⁩⁦ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولو⁩⁦✳️⁩

⁦✳️⁩سیکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے⁦✳️⁩

جی ہاں ! مجھے اپنے دوست مولانا اقلیم علیمی صاحب کا ایک تبصرہ یاد آرہا ہے جو دارالعلوم تنویر الاسلام کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں قطعی غلط نہیں ہے انہوں نے کہا تھا کہ *،،آج اگر تنویر الاسلام کو مرکزی درسگاہ کی بجائے مرکزی فسادگاہ اور مرکز علم و فن کی بجائے مرکز ظلم وستم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،،* ______ واقعی حالات ایسے ہی ہیں ۔ *،،دشمن کو ہر ممکن ضرر پہونچانے کی کوشش کرو،،* والی پالیسی پر سختی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ یقین مانیے....... اگر مولانا ناظم علی صاحب کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو اب تک پے در پے حملوں کی تاب نہ لاکر اپنے تمام تر جائز حقوق سے دست بردار ہو کر مستعفی ہو جاتا یاپھر کچھ نہیں تو حالات سے سمجھوتا کرکے ادارے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا لیکن قابل ستائش ہے مولانا ناظم علی صاحب کا استقلال کہ ان حالات میں بھی ہمت و حوصلے کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ کل حضرت سے بات ہوئی تو دوران گفتگو انہوں نے ایک جملہ کہا جس سے سن کر ان کی کامل یقینی اور عالی ہمتی کا اندازہ ہوتا ہے انہوں نے فرمایا: _____*حق کی راہ میں بڑی سے بڑی پریشانیاں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن حق کو مٹایا نہیں جاسکتا مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن حق غالب آکے ہی رہے گا* (انشاءاللہ) _____ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال نازک ترین ہی ہے جبکہ جان و مال عزت وآبرو وغیرہ سب ہی خطرات میں گہرے ہوں.............
         جی ہاں ! لفظ ،،مال،، میں نے رسما اور روا روی میں نہیں کہا بلکہ اس کی بھی ایک الگ داستان ہے جب سیاہ کاریوں کا فسانہ چل ہی پڑا ہے تو یہ بھی سن لیں........... مولانا ناظم علی صاحب کی ماہانہ تنخواہوں میں سے ناجائز طور پر کٹوتی کرکے ان کے ساتھ فراڈ کیا گیا ______ ~واقعے کی کسی قدر تفصیل یوں ہے کہ مولانا صاحب نے لون پر کچھ رقم لی تھی جس کی ادائیگی قسطوں پر کی جارہی تھی ، مہینوں مقررہ روپیوں کی ادائیگی قسطوں کی شکل میں جاری رہی پھر ایک دن مولانا ناظم صاحب نے منشی سے اپنا جی۔پی۔ایف رجسٹر طلب کیا یہ جاننے کے لیے کہ قسطوں کی ادائیگی مکمل ہوئی یا نہیں، مگر...... منشی رجسٹر دکھانے سے ٹال مٹول کرتا رہا پھر ایک دن مولانا ناظم علی صاحب نے آفس میں جاکر جی۔پی۔ایف رجسٹر طلب کیا تو اس نے کہا کہ رجسٹر مینیجر کے گھر ہے حضرت نے سوال کیا کہ میرا رجسٹر آفس میں ہونا چاہیے تو منیجر کے گھر کیوں ہے ؟ درآنحالیکہ کمیٹی متنازعہ بھی ہے جواب تسلی بخش نہیں ملا پھر منیجر کے گھر سے منشی رجسٹر لایا تو رجسٹر کی حالت مشکوک نظر آئی ، اس میں متعدد جگہوں پر وائٹینر لگا ہوا تھا پھر اتفاقاً ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ رجسٹر کا ایک ورق پھاڑ ڈالا گیا ہے اور پھاڑا ہوا ورق ایک رجسٹر کے نیچے دبا ہوا ملا جسے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی جس میں تین لاکھ چوالیس ہزار چونتیس روپے درج تھے اس کے متعلق سوال کیے جانے پر کوئی قابل اطمینان جواب نہ مل سکا اور جب مولانا ناظم صاحب نے اپنا پاس بک پرنٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ کافی رقم کی ہیرا پھیری ہوئی ہے ، جب اس گھوٹالے کا انکشاف ہوا تو مولانا ناظم صاحب نے منشی سے کہا کہ میں نے لون پاس کرانے کے لیے درخواست دی تھی مگر اب مجھے لون نہیں چاہیے اور مجھے میرا جی۔پی۔ایف رجسٹر اور سروس بک اور کچھ اور ضروری کاغذات ہیں ان سب کو واپس کردو ، تو یہ سارے کاغذات کی واپسی سے انکارکردیا گیا اور انکار کے الفاظ یہ تھے جو کہ تمام اسٹاف کی موجودگی میں پرنسپل روم میں ادا کیے گئے *،،میں نہ تو لون پاس کراؤں گا نہ ہی کاغذات واپس کروں گا جو کرنا ہو جاکر کرلو،،*~ ________ یہ ہے گھوٹالے کی تھوڑی سی تفصیل پھر اسی فراڈ کو لیکر مسلسل کشیدگی اور بحث و تکرار جاری رہی متعدد بار منشی کی طرف سے جارحانہ کاروائی بھی کرنے کی کوشش کی گئی (یاد رہے کہ پچھلی قسط میں میں نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا تھا جو کرائے کے غنڈے لاکر مولانا صاحب کو دھمکی آمیز اشارے کررہا تھا وہ یہی منشی ہے) جس کی مکمل تفصیل اگر کسی کو مطلوب ہو تو مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرسکتا ہے ______________ *اب اہمیت کی حامل اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ حزب مخالف سب کچھ جاننے کے باوجود گھوٹالے باز کا ہم جلیس و پشت پناہ نظر آرہا ہے اور اس کے ساتھ مل کر مولانا ناظم علی صاحب کے خلاف قانونی کارروائی کرتا ہوا نظر آرہا ہے جس کی بنا پر یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کہ ،،کیا اس گھوٹالے میں ایک سے زائد لوگ بھی ہوسکتے ہیں؟،،*
         یہ بھی وضاحت کردوں کہ منشی کی ذات اس سے پہلے بھی اسی قسم کے فراڈ میں ملوث پائی گئی تھی _____ ~ہوا یہ تھا کہ مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کے امتحان کے لیے امید واروں نے فارم بھرے تھے جس کی فیس بھی منشی کے دفتر میں جمع ہوچکی تھی مگر جب امتحان کا ایڈمٹ کارڈ جاری کیا گیا تو پرائیویٹ طور پر فام بھرنے والے امیدواروں کے ایڈمٹ کارڈز نہیں آئے جب انہوں نے دارالعلوم میں آکر ہنگامہ کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ منشی نے پیسے لینے کے باوجود فارم کو آن لائن نہیں کرایا اور پیسے ذاتی جیب میں چلے گئے~ ، بعد میں کچھ کے پیسے واپس تو کیے مگر دو طرح کا نقصان پھر بھی ہوا ایک یہ کہ امیدوار اس سال امتحان سے محروم رہ گئے دوسرے یہ کہ ادارے کے تئیں عوام کا اعتماد مجروح ہوگیا۔
            اور اب حال یہ ہے کہ حزب مخالف مولانا ناظم علی صاحب کے ساتھ ہوئے فراڈ کا منکر نظر آرہا ہے اور مجرم کو مکمل تحفظ فراہم کررہا ہے (قارئین کو یاد ہوگا کہ دوسری قسط میں میں نے مولانا ناظم صاحب کے روم سے بچوں کے کچھ روپیوں کے چوری کا قصہ ذکر کیا تھا جس میں حزب مخالف کے ایک شخص نے مولانا صاحب سے صاف طور یہ کہہ دیا تھا کہ میں کہتا ہوں کہ چوری ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ ایک سازش کے تحت آپ نے یہ ڈھونگ رچا ہے) جبکہ ان کے پاس مولانا ناظم علی صاحب کے پیش کردہ دلائل وشواہد کا جواب نہیں ہے ، *اب اسے ہٹ دھرمی اور سینہ زوری نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ مولانا ناظم علی صاحب نے شرعی اصول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ،،البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر،، یعنی مدعی گواہ پیش کرے اور نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ اپنے انکار پر حلفیہ بیان دے،، کی رو سے مجھ پر بینہ پیش کرنا ہے جو کہ میں نے پیش کردیا اور ابھی اگر آپ کو انکار ہے تو آپ حلف اٹھائیں اور مجھ پر واجب نہ ہوتے ہوئے بھی میں بھی حلفیہ بیان دینے کے لیے راضی ہوں،، ______ مگر حزب مخالف نے قسم کھانے سے صاف انکار کردیا جس پر مولانا ناظم علی صاحب نے کہا کہ ،،شریعت کی رو سے آپ پر قسم کھانا لازم ہے لہذا آپ کو جبراً قسم کھانی پڑے گی،،*
          قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ حزب مخالف کے اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟ *ایک بات میں ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص انانیت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اسی وقت کرتا ہے جب اس کے پاس معقول دلائل نہیں ہوتے اور خود اسے بھی احساس رہتا ہے کہ دلائل و شواھد اس کے خلاف ہی جائیں گے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان زور و زبردستی اور دھمکیوں کے بل بوتے اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے* ________ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں نہ تو کوئی دلیل پیش کی جارہی ہے اور نہ ہی حق کو قبول کیا جارہا ہے بلکہ دھونس و دھاندلی، جبر و دھمکی اور غیر متحقق و بے بنیاد الزامات سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مقصد............؟ تاکہ ہم اپنی شرائط پر مولانا کو صلح پر مجبور کر دیں اور مولانا اپنے تمام حقوق سے دست بردار ہوجائیں، اور گھوٹالے کی پردہ پوشی ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر

💢گمان شب کے  اندھیروں سے نور نکلے گا 💢


💢 مجھے یقیں ہے کہ سورج ضرور نکلے گا 💢

تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر آٹھ


⁦✍️⁩ *تحریر: محمد برہان الدین ربانی مصباحی*


🌻 *_صداقت ہوتو دل سینےسےکھنچنےلگتےہیں واعظ_* 🌻

🌻 *_حقیقت خود کو منوالیتی ہے‘     مانی نہیں جاتی_* 🌻

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خطا پر ہوتے ہوئے بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ صواب پر ہے ، حق پر نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو حق پر سمجھتا ہے اور یہ غلط فہمی اس وقت ہوتی ہے جب اس کو حقائق کا علم نہیں ہوتا یا ہم جلیس حضرات حقائق کا علم ہونے نہیں دیتے اور اس میں ہم جلیسوں کے مفاد پنہا رہتے ہیں اور ان مفادات کا حصول بغیر شخص مذکور کے ناممکن ہوتا ہے___________

حرفِ غلط کو سُن کر درپے نہ خوں کے ہونا


جو کچھ کہا ہے میں نے پہلے اُسے سہی کر

       یقین مانیں ....... میں نے سارے حالات کا از سر نو جائزہ لیا کافی غور کیا کہ حق و باطل کے درمیان تمیز ہوجانے کے باوجود آخر تنویر الاسلام کے فتنے فرو کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ تو دوہی صورتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ کہ حزب مخالف ہٹ دھرمی پر آمادہ ہے اور حق کے ظاہر و باہر ہونے کے باوجود اسے نہیں قبول کرنا چاہ رہا ہے اور کچھ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے باطل کے غلبے کا خواہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن ظن مذکورہ صورت کی تردید کررہا ہے کہ حزب مخالف جہاں اعلی قسم کے جاہلوں اور فتنہ پروروں پر مشتمل ہے وہیں قابل قدر علما بھی موجود ہیں جن کے بارے میں ظن غالب یہی کہتا ہے کہ وہ ان اظہر من الشمس حقائق سے آگاہی کے بعد باطل پرستوں کا ساتھ نہیں دے سکتے _____________ لہذا دوسری صورت ہی سمجھ میں آتی ہے کہ حزب مخالف کے وہ افراد جن کی بد نیتی اور بد دیانتی عیاں ہے ان کو چھوڑ کر بقیہ افراد کو اب تک اندھیرے میں رکھا جارہا ہے یا ان کو صحیح فیصلے تک پہونچنے ہی نہیں دیا جارہا ہے اور غلط تاویلیں کر کے غلط کو صحیح کرکے پیش کیا جارہا ہے _______

لوگ   باتیں   بنانے    پہ   ایسے    تُلے


چُھپ گئی ہر حقیقت فسانوں کے بیچ

         لہذا آج میں صرف انہیں حضرات سے مخاطب ہوں جو گندی ذہنیت افراد کے درمیان پھنس کر نادانستگی ہی میں سہی خود کو اور تنویر الاسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں *چونکہ میں بھی کبھی اسی دارالعلوم کے بام ودر کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرچکا ہوں یہ دارالعلوم میرا بھی مادر علمی ہے لہذا دیگر فارغین تنویر کی طرح میرا بھی فکر مند ہونا بجا ہے ، فرق فقط اتنا ہے کہ میں نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی فکر مندی کا اظہار نوک قلم سے کررہا ہوں جو کہ میرا حق ہے مقصد بس یہ ہے کہ حقیقت حال کو اجاگر کرنا اور ضرر رساں عناصر کی پردہ دری کرنا ہے*

نہ بک سکی کسی بازارِ مصلحت میں کبھی


مری  زباں کی  صداقت مری  اَنا کی طرح

چونکہ مجھے پہلے سے ہی شبہ ہے کہ شر پسند عناصر نے کچھ ایسی شخصیات کا سہارا لیا ہے جن پر مجھے اور مجھ جیسے متعدد فارغین تنویر کو کلی اعتماد تھا۔ جیسا کہ پہلی قسط میں ہی میں نے تذکرہ کیا تھا ، ساری صورتحال کا علم ہوتے ہی مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ خداوندا ! یہ کیسی صورت حال ہے کہ جہاں دیدہ اور معزز شخصیات بھی فتنے میں ملوث نظر آرہی ہیں جن کو حق کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اور تبھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ غیر شعوری طور پر ہی سہی یہ شخصیات شرپسندوں کی آلہ کار بن گئی ہیں ۔
        *بڑے ہی احترام سے ان شخصیات کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ اب تک کے حادثات و واقعات اور ان کے نتائج کا محاسبہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ یقینا آپ اب تک خطا پر تھے اب بھی اگر آپ سب چاہیں تو ان سارے مسائل کا تصفیہ ہوسکتا ہے اور اسی میں ادارے کی بھلائی مضمر ہے ورنہ تو اس کا مستقبل کچھ پرامید نظر نہیں آتا* (اللہ رحم فرمائے)  چلیے میں ہی شروع سے یاد دلاتا ہوں اور آپ کما حقہ دیانت کے ساتھ تفکر و تدبر کے ساتھ سنیں۔
🔘 تنویر الاسلام کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر مولانا ناظم علی صاحب کے روم میں بچوں کی چوری کا معاملہ تھا سارے قرائن، گواہ اور ثبوت چور کے خلاف تھے مگر تسلیم نہیں کیا گیا آخر کیوں؟ جبکہ اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں تھی.....؟
🔘 کسی کے بھڑکانے پر یہ کہہ دیا گیا کہ*،،مولانا ناظم صاحب ملزم بچے کے سرپرست کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں،،* اور بلا دلیل کے اس الزام کو تسلیم کرلیا گیا اور دو شخصیات کے مابین بد گمانیوں کی دیوار پڑ گئی جو آگے چل سنگین نتائج اور فتنہ شدید کا سبب بن گئیں۔
🔘 اسی چوری کے معاملے پر اساتذہ کی گفت و شنید کے درمیان ایک استاد نے یہ بات کہہ دی کہ *،،چوری ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ یہ مولانا ناظم صاحب نے ایک سازش رچی ہے،،* غور کریں ایک ذمہ دار استاد ایسی غیر ذمے دارانہ اور بے اصل و بے دلیل بات کہہ دے اور اس کو خاموشی کے ساتھ قبول بھی کرلیا جائے یہ کہاں تک درست ہے.....؟ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں _اگر چہ میرے پاس کوئی دلیل نہیں_ کہ یہ بات اور اس سے پہلی والی بات سوچی سمجھی پلاننگ کے ساتھ کہی گئی اور پھوٹ ڈالنے میں ان دونوں جملوں کا اہم کردار رہا ہے۔
🔘 مولانا ناظم علی صاحب پر چندہ نہ کرنے کا الزام لگایا گیا نیز ان کو مدرسے کا بد خواہ گردانا گیا_______ کیا الزام لگانے والے مدلل طریقے سے اس الزام کو ثابت کرسکتے ہیں؟ کیا آپ اس الزام میں ذرہ برابر بھی صداقت کی بو پاتے ہیں؟ یقیناً نہیں ۔ تو جب یہ الزام مولانا صاحب پر لگایا گیا تو آپ نے اسے تسلیم کیوں کرلیا؟ اگر آپ نے تسلیم کیا تو کیا آپ اتنے ہی غیر ذمے دار ہیں کہ آپ کے درمیان رہنے والے ایک عالم پر جھوٹا الزام عائد کیا جائے اور آپ بے چون وچرا بلا دلیل تسلیم کرلیں؟ جبکہ دارالعلوم کے آفس میں ہر سال کا ریکارڈ ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کہ کس نے کتنا چندہ کیا ہے اس ریکارڈ سے ساری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی مگر ایسی کوئی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی کیوں.......؟ اگر کسی نے کسی سال چندہ نہیں کیا تو بجائے اس کو بدخواہ مشہور کرنے کے ہونا چاہیے کہ پہلے اس سے سبب پوچھا جائے ممکن ہے اس کے پاس کوئی معقول عذر ہو______ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آپ سمیت کتنے ایسے لوگ جن کے درمیان مولانا ناظم صاحب کو بدخواہ مشہور کیا گیا سب کے سب بدگمانی کے گناہ میں مبتلا ہوئے۔ کوئی جواب ہے آپ کے پاس.......؟
🔘 یقیناً ایک سال مولانا ناظم علی صاحب نے چندہ نہیں کیا تھا مگر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ مولانا ناظم علی صاحب کی اہلیہ محترمہ کی طبیعت انتہائی علیل تھی ہسپتال میں تھیں، کیا ایسی کوئی صورت حال آپ کو پیش آتی تو آپ اپنے عزیز کو زندگی اور موت کے درمیان چھوڑ کر چندہ کرنے نکل کھڑے ہونے کا حوصلہ کر پاتے........؟
🔘 *پورا ادارہ اور اس کے منتظمین اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا ناظم علی صاحب نے آنے سے پہلے ہی چندے کی ذمے داری سے استعذار کیا تھا جو کہ قبول بھی کیا گیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے چندہ کیا اور کررہے ہیں کیا اسی کا نام بدخواہی ہے........؟* ________ *مدرسے میں چوبیس گھنٹے رہ کر بچوں کی نگہداشت کرنا ، مسجد میں اگر اذان نہ ہوئی ہو تو اذان کہہ دینا، نماز پڑھا دینا، کیا اسی کا نام بدخواہی ہے....؟* کسی بھی جہت سے مولانا ناظم علی صاحب کی بد خواہی ثابت نہیں ہوتی پھر بھی اگر انہیں بدخواہ کہا جارہا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش ہے۔ تو کیا آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ ان سازشیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائیں...........؟
🔘 تدریس میں غیر ذمے داری برتنے جیسے الزامات کی حقیقت کیا ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں تو طلبہ سے معلوم کرسکتے ہیں ایسی بے بنیاد باتوں کی عوام کے درمیان تشہیر کی گئی جبکہ اس پر کوئی دلیل و ثبوت کسی پاس نہیں ہے تو ماننا پڑے گا کہ ایسی جھوٹی باتیں اڑانے والوں کی نیت خیر نہیں ہے ________ اوقات تعلیم میں تدریس چھوڑ کر مہمان نوازی کرنے کا الزام بھی بے بنیاد ہے جس کی گواہی میں اور میرے جیسے کثیر تعداد میں فارغین دینے کے لیے تیار ہیں ، مہمان نوازی ہوتی ہے مگر تدریس چھوڑ کر نہیں اور *اگر مطلقاً مہمان نوازی ہی جرم ہے تو اس جرم میں صرف مولانا ناظم صاحب ہی نہیں بلکہ دیگر اساتذہ بھی ملوث ہیں جس کے گواہ بھی موجود ہیں۔*
🔘 بد مذہبوں سے تعلقات کا الزام لگایا گیا_____ یقیناً میرے مخاطب علمائے تنویر ہیں جو اس بات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ بد مذہبوں سے کس طرح کے تعلقات کی ممانعت ہے اور کیسے تعلقات جائز........ آخر کس طرح کے تعلقات کی بات کی جارہی ہے؟ *اگر آپ مطلقاً تعلقات کی ممانعت کی بات کررہے ہیں تو صرف مولانا ناظم علی صاحب کی بات کیوں کریں (اگرچہ انہیں کسی بھی طرح کے تعلقات میں ملوث نہیں پایا گیا) نام بہ نام کئی اساتذہ کو میں شمار کرا سکتا ہوں جن کے بد مذہبوں سے تعلقات ہیں اور جس طرح کے تعلقات ہیں وہ بھی قابل گرفت ہو سکتے ہیں، اور اس پر شاہد بھی حاضر خدمت کرسکتا ہوں* ۔ اب آپ خود غور کریں کیا کسی ایسے شخص کو حق ہے کہ وہ کسی پاکدامن شخص پر اس طرح کے کیچڑ اچھالے جس کا دامن خود ہی داغ دار ہو...........؟
🔘 مولانا ناظم صاحب کے ساتھ غبن کیا گیا اور غبن کرنے والا آپ کے سامنے موجود ہے سارے ثبوت اس کے خلاف موجود ہیں اس سے پہلے بھی وہ شخص گھوٹالے بازی میں ملوث پایا گیا ہے______ کیا آپ کے پاس اس پر کوئی ثبوت ہے کہ اس نے غبن نہیں کیا ہے؟ اگر نہیں ہے تو آپ نے اب تک کیا کیا؟ شخص مذکور کو آڑے ہاتھوں کیوں نہیں لیا؟ *مولانا ناظم علی صاحب مدعی ہونے کی حیثیت سے شواہد پیش کررہے ہیں جو کہ بالکل واضح ہیں کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے پھر بھی اگر آپ کو قبول نہیں ہے تو آپ منکر ہونے کی حیثیت سے حلفیہ بیان دیں جیسا شریعت کا حکم ہے* .............. مگر آپ کی جانب سے ٹال مٹول کی مدت میں توسیع ہوتی جارہی ہے اسے کیا نام دیا جائے؟ کیا اسے یہ سمجھا جائے کہ آپ خود ہی اس نزاعی معاملے کی طوالت کے خواہاں ہیں ؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں ؟
🔘 بجائے نزاعی معاملے کو رفع کرکے پر امن فضا قائم کرنے کے آپ مسلسل اس کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں *مولانا ناظم صاحب اپنے کچھ ضروری کاغذات کا مطالبہ کر رہے ہیں (جس کا تذکرہ میں نے ساتویں قسط میں کیا ہے) آپ کیوں دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ بلکہ بذریعہ نوٹس دینے سے انکارکر رہے ہیں* کیسے اس معاملے میں آپ کا دامن صاف مان لیا جائے کیسے......؟
🔘 آپ نے مولانا ناظم صاحب پر ابھی چند روز پہلے یہ الزام لگایا کہ انہوں نے کہا ہے کہ *،،میں مدرسہ نہیں چلنے دوں گا،،* اور مولانا ناظم صاحب اس بات سے منکر ہیں اور حلفا اور قسما اس بات کے منکر ہیں کہ انہوں نے ایسا جملہ استعمال کیا ہے بلکہ ان کا جملہ یہ ہے *،،میں اب غلط نہیں ہونے دوں گا مولانا صاحب! اب وہی کرنا ہوگا جو صحیح ہوگا،،* _____ *اب آپ خود ہی بتائیں ایسی صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہی نا کہ آپ مدعی ہیں تو بینہ پیش کریں اور اگر نہیں تو مولانا ناظم صاحب سے قسم لیں اور مولانا ناظم صاحب ہر وقت حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں_______ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا آپ اللہ و رسول (جل جلالہ ﷺ) کو حاظر و ناظر مان کر مولانا ناظم کے ساتھ قسم کھاسکتے ہیں.....؟؟؟* یقیناً نہیں کھا سکتے کیوں کہ آپ بھی جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ حق و صداقت کا علم کس کے ہاتھ میں ہے، یقینا دنیا کو آپ آخرت پر ترجیح نہیں دیں گے۔

میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں


وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں

🔘 ایک مرتبہ آپ اس پر بھی ضرور غور کریں کہ اب تک کے اختلافات سے کیا سود مند نتیجہ حاصل ہوا؟ کچھ بھی نہیں _______ *ہاں اتنا ضرور ہوا ہوگا کہ طلبہ کو تعلیم وتدریس میں روکاوٹ پیدا ہوئی ہوگی ، انکے ذہن انتشار کا شکار ہوئے ہونگے، تعلیمی نظام درہم برہم ہوا ہوگا، دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط ٹھہرا رہے ہونگے اور معاذ اللہ بدگمانی کے گناہ میں بھی مبتلا ہونگے، علاقے میں گروپ بندی ہوئی ہوگی، ادارے سے اعتماد اٹھ گیا ہوگا، وغیرہ وغیرہ* ۔
🔘 آخر ان سب کا ذمے دار کون ہے ؟ یقیناً حزب مخالف کے لوگ ہیں وہ اس طرح کہ *جب مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے امن وامان کی بحالی کی طرف پیش قدمی ہورہی ہے تو آپ سب معاملے کو طول دینے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اگر آپ یقیناً ادارے کے خیر خواہ ہیں اور اس کی بہتری چاہتے ہیں تو دیر کس بات کی چند معزز شخصیات کو اکھٹا کرکے سارے معاملات و مسائل سامنے رکھ کر شرعی طریقے سے حل کر لیا جائے اور پھر جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے تو حقدار کو اس کا حق اور مجرم کو قانون کے حوالے کردیا جائے۔*
🔘 یقیناً آپ سب اہل علم ہیں آپ کو کچھ سمجھاتے ہوئے خود شرمندگی ہوتی ہے مگر کبھی کبھی چھوٹا بڑے کو احساس دلاتا ہے اور بڑا اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بات قبول بھی کرتا ہے *،،اگر اختلافات ختم ہی کرنا ہے اور پرامن فضا کا قیام چاہتے ہیں تو امام حسن و أمیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرلیں اس بہتر کوئی اور صورت نہ ہوگی،،* ادارے کی ترقی اور اس کی بہتری کے لیے اگر کچھ جھکنا ہی پڑے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے *اگر اس اختلاف کی باعث زیر تعلیم بچوں کا مستقبل خراب ہورہاہے تو یقین جانیں کل بروز قیامت جواب دہی بھی کرنی پڑے گی جس کی طاقت کسی کے اندر نہیں ہے۔* سارے معاملات و واقعات آپ کے سامنے پیش ہیں سنجیدگی سے غور کریں اگر اب بھی آپ طول دینے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ کی ادارے کے تئیں خیرخواہی پر سوالیہ نشان ہے..............
🔘 *ساتھ ہی اہل امرڈوبھا اور قرب و جوار کے مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ خدارا کسی گروپ بندی کے بجائے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ ہمارا اپنا ادارہ ہے ہماری شان اور پہچان ہے ہمارا اور ہمارے بچوں کا اچھا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے ، اگر ہمارے اس عظیم ادارے کو خدا نخواستہ کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ہم کہیں منھ دکھانے کے لائق نہیں بچیں گے ، آج بھی لوگ اپنے علاقے میں مدرسوں اور اداروں کے قیام کے لیے چندے مانگتے پھرتے ہیں اور بنا بھی لیں تو اس کو تنویر الاسلام جیسی بلندی دیتے دیتے سالوں لگ جاتے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ ہمارے پاس بنا بنایا ادارہ ہے اگر ہم اس کو بھی کھو دیں گے تو ہم سے بڑا محروم کوئی اور نہ ہوگا لہٰذا کوشش کرکے سارے اختلافات ختم کرکے ادارے کو مزید ترقی کی ڈگر پر لے چلیں اور اتنی بلندی دینے کی کوشش کریں کہ ہم اور آنے والی نسلیں فخر کر سکیں اللہ سے دعا ہے کہ آپ کی کوششیں رائیگاں نہ جانے پائیں آمین۔

کس کو معلوم ان اشکوں کی حقیقت اے دوست


روح کی سمت جو آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں

سرمایہ حدیث اور ہماری لاپروائیاں

*سرمایۂ حدیث اور ہماری لاپرواہیاں*
*____________________________________*
*از:محمّدبرہان الدّین ربّانی مصباحی*
*خادم التّدریس:دارالعلوم سلطان الہندورضا،سانگانیری گیٹ،بھیلواڑہ (راجستھان)*
*___________________________________*

                وضع حدیث کا فتنہ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پرانا ہے ہجرت نبوی کے چالیس سال بعد ہی سے اس کی ابتدا ہوچکی تھی اور اس کی شروعات روافض نے کی تھی۔ 
         جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک احادیث میں ان افترا پردازوں کے خلاف وعید بھی آئی ہے بایں طور کہ فرمان عالیشان ہے ،،من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار،، ( یعنی شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں ڈھونڈے) 
          محدثین کرام نے صحیح و موضوع احادیث کی چھان بین کے سلسلے میں گراں مایہ و قابل قدر خدمات انجام دیں اور ایسے پختہ اصول وضوابط مرتب کیے کہ جنہوں نے صحیح و موضوع احادیث کے مابین خط امتیاز کھینچ دیا اور جن اصولوں کی روشنی میں صحیح و موضوع روایات کے مابین تمیز کرنا آسان ہو گیا (اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے)
         ایک طویل زمانے تک انہیں اصول کو سپر بنا کر ہم واضعین حدیث کی جانب سے کی جانے والی سازشوں سے مقابلہ کرتے رہے اور کررہے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے ایک اور فتنہ نسل نو کو دھیرے دھیرے اپنی گرفت لیتا جارہا ہے اور سوشل میڈیا سے مربوط مسلم طبقہ اس سے متاثر بھی ہوتا جا رہا ہے۔ وہ فتنہ ،،سوشل میڈیا کے ذریعے احادیث موضوعہ کی اشاعت،، ہے۔
          دیکھنے میں آرہا ہے کہ بشارتوں ، وعیدوں اور فضائل و مناقب سے متعلق غلط سلط باتیں کسی صحابی رسول یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے منسوب کرکے عوام تک پہونچائی جارہی ہیں۔ اور عوام بے چارے کیا کریں۔۔۔۔۔۔؟ ان کے لیے تو بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اردو اور ہندی پوسٹس کے اوپر جلی حروف میں ،،الحدیث،، لکھا ہوا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ یہ حدیث نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟
          سوشل میڈیا ایک ایسا عالمی پلیٹ فارم ہے جہاں سے لمحوں میں چیزیں عالمی سطح پر نشر ہوجاتی ہیں گویا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گمراہ کرنے کا اس سے زیادہ خطرناک پلیٹ فارم اور کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
           کبھی کبھی ایسی موضوع احادیث اردو و ہندی زبان میں ہمارے سامنے بھی آتی ہیں مگر ہم اس کو لائق اعتنا نہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر کے اگے بڑھ جاتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔ غور کرنے کا مقام یہ ہوتا ہے کہ یہی جھوٹی حدیث جو ہمارے سامنے آئی ہے ایسے ہی کروڑوں لوگوں کے سامنے آئی ہوگی اور ان کروڑوں لوگوں میں سبھی عالم نہیں ہونگے نا ہی سبھی کے پاس صحیح و موضوع احادیث کی معرفت کا درک ہوگا، ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اس کو صحیح گمان کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ شئیر بھی کیا ہوگا اور انجانے میں ایک کار شر میں حصہ لے بیٹھے ہوں گے (العیاذ باللہ)
          سوشل میڈیا کے آنے سے قبل اگر کوئی شخص کسی سے حدیث بیان کرتا تو وہ علما سے رجوع کرکے اس کی صحت کے متعلق دریافت کرلیا کرتا تھا مگر آج اکثر کو اس کی توفیق نہیں ہے
ہم سبھی نے دیکھا ہوگا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منسوب اقوال جس میں سچے بھی ہوتے ہیں اور جھوٹے بھی ہمہ وقت سوشل میڈیا کی زینت بنے گردش کرتے رہتے ہیں ، خدا خیر کرے بعض پوسٹوں پر فرضی حوالے بھی تحریر رہتے ہیں، اور عوام اس کو اہمیت بھی دیتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات چیت میں استعمال بھی کرتے ہیں اس طرح مختلف طریقوں سے غلط و موضوع روایات کی اشاعت ہورہی ہے اور ساتھ ہی گناہ جاریہ بھی ہورہاہے۔
          اب اس کے متعلق یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتا کہ ایا اس کے پیچھے کوئی منظم سازش بے یا کوئی سرپھرا طبقہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ابتدائی مراحل ہی میں اس کا سد باب نہ ہوا تو نتائج بدترین بھی ہو سکتے ہیں۔
          حد تو یہ ہے کہ بعضے پیشہ ور مقررین کو بھی دیکھا گیا ہے جن کا در المطالعہ فقط سوشل میڈیا ہے وہ بھی غیر شعوری طور پر انہیں واضعین حدیث کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے استفادے پر مجھے قطعاً کوئی شکوہ نہیں البتہ اس بات کا گلہ ضرور ہے کہ بلا تحقیق و تفتیش کے وہاں سے ماخوذ باتیں خواہ حدیث ہو یا خبر بین العوام بیان کردی جاتی ہیں اور ایک ذمے دار منصب پر فائز ہوکر نہایت غیر ذمے دارانہ فعل انجام دے دیا جاتا ہے (اللہ ہدایت کی توفیق بخشے) 
         اب بات آہی گئی ہے تو معذرت کے ساتھ ضمناً کہہ رہا ہوں کہ ہمارے بعض پیشہ ور خطبا حضرات اپنی تقاریر میں احادیث کو بیان کرنے کے بعد اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ناجانتے ہوئے بھی کتاب کا حوالہ پیش کر دیتے ہیں جو کہ غلط ہوتا ہے ، ایسے ہی ان کی تقاریر کو ترتیب دے کر جو کتاب تیار کردی جاتی ہے ان میں بھی وہی غلط حوالے مذکور ھوتے ھیں ، صفحہ نمبر کی غلطی تو دور اس کتاب کو بطور حوالہ پیش کر نے میں غلطی کردیتے ہیں اور اس کتاب میں وہ حدیث سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے، 
           ایک مرتبہ دوران طالب علمی میں اور میرے ایک عزیز دوست ایک خطیب صاحب کی خطبات کی کتاب میں مذکور حدیث کے حوالے کی تحقیق کے سلسلے میں کافی مشقت کا شکار ہوئے مگر مذکورہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم حوالے میں ذکر کی گئی کتاب ترمذی شریف میں نہیں ملی تو ہم نے حضور صدر العلما محمد احمد مصباحی کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے رہنمائی فرمائی کی یہ حدیث ترمذی شریف میں نہیں ہے بلکہ یہ تو،،جامع صغیر،، اور المقاصد الحسنہ،، میں ملے گی اور یہ حدیث ضعیف ہے مگر فضائل میں ضعیف حدیث کا اعتبار ہوتا ہے
         اس طرح ان کے جھوٹے حوالے کتابی صورت میں آکر انمٹ نقوش کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پڑھنے والا مغالطے میں رہتا ہے بالخصوص طلبۂ مدارس اس سے استفادہ کرتے ہیں اور وہی غلط سلط حوالے اپنی تقریروں میں ذکر کرتے رہتے ہیں ، لھذا اس چیز کی اصلاح بھی ناگزیر ہے۔
          سرمایۂ حدیث کا تحفظ ایک ہم ذمے داری ہے جس کو کماحقہ پوری کرنا نہایت ضروری ہے اور اسی پر ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل منحصر ہے اگر ابھی سے اس پر منظم طریقے سے کام شروع نہ کیا گیا اور احادیث موضوعہ کی ترویج و اشاعت کا انسداد نہیں ہوا تو احادیث صحیحہ و موضوعہ خلط ملط ہو کر رہ جائیں گی پھر جب تک ان کی چھان بین کی جائے گی تب تک امت کی بڑی تعداد گمراہ ہوچکی ہوگی (اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے)
           دوران طالب علمی استاذ محترم مولانا صدر الوری صاحب قبلہ استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے دوران درس ایک انکشاف کیا کہ بدمذہبوں کے مطبع کی مطبوعہ کتب احادیث سے احادیث کو غائب کرنے کی سازش ہورہی ہے اور بالخصوص وہ احادیث جو ہمارے لیے ان پر دلیل ہیں انہیں ہی کتب احادیث سے خارج کردیا جارہا ہے، پرانے نسخوں میں وہ احادیث موجود ہیں مگر نئے طبع شدہ نسخوں میں وہی احادیث نہیں مل رہی ہیں۔
            یہ معاملہ نہایت سنگین ہے اور اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور آج جو گنے چنے پرانے صحیح نسخے موجود ہیں ان سے نئی مطبوعات کی اصلاح کی جانی چاہیے کیونکہ خدا نخواستہ اگر وہ پرانے نسخے بھی باقی نہ رہے تو سمجھئے کہ ہم نے احادیث نبوی کے ایک عظیم سرمائے کو ضائع کردیا۔
           بہر حال یہ بات واضح ہے کہ ہماری عدم توجہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالفین اہل سنت مسلسل سرگرم عمل ہیں اور احادیث میں تحریف اور اس کی اصل صورت کو مسخ کرنے کی کوشش میں تن من دھن سے لگے ہوئے ہیں ، اب اگر علمائے اہل سنت کو حقیقتاً دین کا درد ہے اور شریعت کا تحفظ مطلوب ہے تو یہ ان ذمےداری ہے کہ اس کے خلاف میدان عمل میں آئیں اور منظم تحریک چلائیں تاکہ مذکورہ تینوں فتنوں اور اس جیسے دیگر اہل سنت وجماعت مخالف پروپیگنڈوں کا بروقت سد باب ہوسکے ، اس کے لیے جوبھی مناسب کارروائی کرنی پڑے کی جائے۔
         اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اہل سنت وجماعت کو آپسی رنجشوں کو ختم کرکے متحد و منظم ہونے کی توفیق بخشے اور ان کے ذریعے دین و شریعت اور منابع شریعت کے تحفظ کام لے اور اس کام کی تکمیل میں ان کو کامیابی عطافرمائے (آمین)
مبرم

مبرم

امانت اعلی حضرت کی شاعری میں صنائع بدائع

یہ بات مسلم ہے کہ ابتداء آفرینش سے لے کر اب تک بے شمار لوگ اس دنیائے فانی میں پیدا ہوئے اور اپنی مقررہ مدت حیات پوری کرنے کے بعد اپنے پیچھے اشکبار آنکھیں اور اداس یادیں چھوڑ کر الوداع کہہ گئے ، پھر مرور زمان کے ساتھ روتی ہوئی آنکھیں خشک ہوگئیں اور یادوں کے نقوش پر جہان کی رنگینیاں غالب آگئیں

  یہی زمانے کی ریت ہے مگر کچھ شخصیات ایسی بھی ہوئیں جو اپنے تھوڑے سے عرصہ زیست میں علم و عمل کے ایسے تاباں نقوش ثبت کر گئیں جن کی تابانی نے انہیں نقوش پارینہ ہونے سے محفوظ رکھا 
امانت اعلی حضرت ، حضرت علامہ قاری امانت رسول قادری تغمدہ اللہ بغفرانہ کا شمار انہیں صاحبان فضل و کمال میں ہوتا ہے کہ جن کے اعمال و خدمات اور کردار کی طیب مہکار ان کے خواب عدم میں چلے جانے کے باوجود ان کی زیست کا احساس دلاتی ہے 
امانت اعلی حضرت رحمہ اللہ کی حیات کے مختلف گوشوں میں سے ایک ان کی نعتیہ شاعری بھی ہے ، ماہرین فن اور صاحبان ذوق ان کی شاعری کی جدت طرازی ، ندرت آفرینی ، سلاست خیالی اور بندش و برجستگی سے انکاری نہیں ہوسکتے ،ان کی نعتیہ شعری زرنگاری اور محاسن سخن جہاں ان کے وفور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاسی کرتے ہیں وہیں ان کی قادر البیانی کا عمدہ ثبوت بھی ہیں
سہل الفاظ میں مرغہائے تخیلات کو قفس الفاظ میں ڈال کر منظوم شکل دینے کا کام مفتی اعظم ہند کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہ کرنے والی شخصیت ہی کا حصہ ہے مزید یہ کہ ان اشعار میں صنائع بدائع کی جلوہ گری بھی ہے مثلاً یہ شعر 

بارہ تاریخ ماہ منور کی تھی
جس گھڑی آفتاب جمال آگیا

شعر مذکور جو کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے اس شعر
 ،،جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند،، 
,,اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام،،

سے مستفاد معلوم ہوتا ہے صنعت استعارہ کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں  لفظ آفتاب کو بطور استعارہ محضہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اگر کفر وضلالت کی تیرگی میں سرگشتہ نوع بنی آدم کی زبوں حالی کے تناظر میں اس لفط مستعار پر گہرائی و گیرائی کی نگاہ ڈالی جائے تو اس کی معنویت کا صحیح ادراک ہوتا ہے 
اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے اسی شعر مذکور کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہوا امانت اعلی حضرت کا یہ شعر بھی صنعت استعارہ کی ایک نظیر ہے

چمکا مکے میں مدینے کا وہ چاند
کتنی اچھی پیاری ساعت زندہ باد

اس طرح کے ڈھیروں عطر آگیں گلہاۓ بو قلموں سے گل دستہ حمد و نعت معمور ہے، جن میں ایک طرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکارے ہیں تو دوسری طرف صنعات فن کی تابش فن شناسوں کے اذہان کو جلا بخشنے والے ہیں جیسے مندرجہ ذیل شعر میں موصوف علیہ الرحمہ نے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گیسوۓ پاک کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

غلاف مشکیں کعبے کو پنھایا ہے یہ لگتا ہے
وہ اڑ کر ابرو پر آۓ مرے سرکار کے گیسو

سبحان اللہ! کہا جاتا ہے کہ ایک شاعر کے اندر جب تک جمالیاتی حس نہ پائی جائے تب تک وہ اچھے اشعار نہیں کہہ سکتا،، شعر مذکور سے نہ صرف امانت اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی جمالیاتی حس کی افزودگی عیاں ہورہی ہے بلکہ شاعر کی فنی استعداد و مہارت بھی آشکار ہورہی ہے ، قاری صاحب علیہ الرحمہ کے اس شعر میں صنعت تشبیہ کا استعمال اتنے شگفتہ پیرائے میں کیا گیا ہے کہ معنویت دوبالا ہوکر چہرے پہ پر تقدس مسکان سجائے نظر آتی ہیں
بایں طور کہ زلف سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے ابرو مبارک پر چھاجانے کو کعبے کو مشکبار غلاف پہنانے سے تشبیہ دی ہے ، مگر حقیقت میں زلف سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاف کعبہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور ابروۓ پاک اور کعبہ مقدسہ کے درمیان بھی علاقۂ تشبیہ پیدا کیاگیا ہے مزید برآں مشبہ بہ ،،غلاف کعبہ،، کو مشکباری کی صفت سے متصف کرکے زلف پاک کے لیے مشک آمیزی کا ثبوت شعر کی معنی آفرینی میں اضافے کے ساتھ شاعر کی ژرف بینی پر بھی دال ہے۔
صنعت اقتباس فن شعر گوئی کی مشکل ترین صنعت ہے جس کی مثالیں قدیم شعرا کے دیوانوں میں نادر الوجود ہے ہاں البتہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی نعتیہ شاعری اس صنعت سے آراستہ پیراستہ نظر آتی ہے اور امانت اعلی حضرت کی شعر گوئی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی شاعری کے طرز و اسلوب کی عکاس ہے اسی سبب امانت اعلی حضرت کے گلستان اشعار بھی اس صنعت کی ضیا گستری سے بقعۂ نور بنا ہوا ہے، مثلاً حمد باری تعالیٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عصیاں تو میرے ہیں حد سے سوا
فرمادے کرم مجھ پہ مولا
؛لا تقنطوا؛ ہے فرمان ترا
 سبحان اللہ سبحان اللہ

پہر اسی زمین پر نعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہوئے لکھتے ہیں:

قرآں میں کہے رب اکبر
انا اعطیناک الکوثر
اے شمس و ضحیٰ یٰسین طہ
سبحان اللہ سبحان اللہ

ایضاً میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کہا قرآن نے ،،قد جاءکم من اللہ بھی
منانا مولا کی سنت ہے بارہویں تاریخنیز شھیدان بدر حضرت معوذ و حضرت معاذ رضی اللہ عنہما کی کی بارگاہ میں بشکل منقبت نذرانہ عقیدت و محبت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
،،رضی اللہ عنھم،، ہے قرآن میں
،،ورضوا عنہ،، بھی آیا معوذ و معاذ

نیز مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

من زار تربتی ،، کہیں رحمت عالمین جب
زائر روضہ ہوگیا جنتی باخدا فقط

سارے نبی رسل کہیں گے نفسی نفسی حشر میں
،،یا رب ھبلی امتی،، بولیں گے مصطفی فقط
حشر میں ،،اذھبوا الی غیری،، کہیں گے سب نبی
فرمائیں گے ،، انا لھا،، سرور انبیا فقط

صنعت اقتباس سے مزین اس طرح کی بہیتری مثالیں امانت اعلی حضرت کے شعری مجموعے میں ملیں گی بلاشبہ یہ امانت اعلی حضرت پر سیدی اعلٰی حضرت اور مفتی اعظم ہند رحمہم اللہ کی نظر فیض اثر ہے کہ اس خاص صنعت میں بھی آپ نے نہ صرف طبع آزمائی فرمائی بلکہ کثیر اشعار کے در بے بہا بکھیر دیے ہیں۔
   اب آئیے صنعت تضاد میں بھی موصوف رحمہ اللہ نکتہ سرائی پر ایک نظر ڈالتے چلیں شعر:

ظلمتیں کفر کی شرک کی مٹ گئیں
صبح صادق میں وہ خوش خصال آگیا

شعر مذکور پر جیسے ہی نگاہ اولیں پڑتی ہے تو بادی النظر میں صنعت تضاد کی صرف ایک دلکش نظیر سامنے آتی ہے یعنی ،،ظلمت کفر و شرک اور صبح صادق،، مگر دقیق نظری سے دیکھنے پر اسی صنعت کا ایک اور نکتۂ سربستہ طرفگی و تحفگی کی پشمینہ اورڑھے جلباب شنگرف کی نظیر بنا نظر آتا ہے جو کم از کم میرے لیے نوادر میں سے ہے کیونکہ ظلمت کفر و شرک اور صبح صادق میں تضاد معنوی تو ظاہر ہے مگر معنی حقیقی و معنی مجازی کا تضاد انفرادیت کا حامل ہے بایں طور کہ کفر و شرک کی ظلمت اور تاریکی ایک حکمی و مجازی شئی ہے جس کی اصل صراط مستقیم کو نہ پانا ہے اور برعکس اس کے صبح صادق میں حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ایک حقیقی شئی ہے
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا 
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے 
یہیں تک بس نہیں بلکہ امانت اعلی حضرت نے اپنی شاعری میں اکثر تاریخی واقعات کی ترجمانی کی ہے جس کو اہل فن صنعت تلمیح سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ صنعت اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ مختصر اور جامع الفاظ میں تفصیلی واقعات کو ذکر کرنا کافی دقت و مراقبت طلب امر ہے جو بازیچہ اطفال نہیں ہے مثلاً:

پہلے ہجرت کی مکے میں پھر شان سے
با ہزاراں جلال و جمال آگیا

شعر مذکور کو پڑھنے کے بعد ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پُر کلفت و مشقت واقعات ایک ایک کرکے سامنے آنے لگتے ہیں اور پھر چند سالوں کے بعد اہل اسلام کے مابین انقلاب عظیم ، قلت تعداد کا کثرت میں تبدیل ہونا وغیرہ واقعات کی طرف یہی شعر واحد مشیر ہے۔
ابرہا آئے تھے اللہ کے گھر کو ڈھانے
مار ابابیل کی کنکریوں سے کھائے ہوئے ہیں

مذکورہ شعر بھی صنعت تلمیح کی ایک مثال ہے جس میں قبل میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابرہا بادشاہ کے اپنے لشکر سمیت حملہ آور ہونے اور ان کے ابابیل پرندوں کی کنکریوں سے ہلاک ہونے والے تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے
اسی طرح ڈھیروں اشعار کے خزانے مجموعے میں شامل ہیں جس میں اس صنعت اور علاوہ ازیں دیگر صنائع مثلاً حسن تعلیل ، تلمیع ، ترصیع، تجاہل عارفانہ ، تجنیس ، مراعات النظیر ، مرصعہ ، مستزاد مقابلہ وغیرہ کا استعمال کمال مہارت اور فنی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا گیا ہے جس کا ذکر طوالت سے احتراز کے باعث ترک کردیا گیا ہے، 
آخر میں ایک اور خوبئ کلام قابل ذکر ہے جس سے پہلوتہی کرنا جوہر ناشناسی کہلائے گی کہ امانت اعلی حضرت نے تاریخ گوئی میں تاریخ صوری کی صورت اختیار کی ہے جو کہ نہایت سلیس و سہل الفہم ہے بر خلاف تاریخ معنوی کے کہ جس کے اعداد سے بحساب جمل اس واقعہ کا سنہ برآمد ہو، جس کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لئے ممکن نہیں ہے۔
لیکن تاریخ صوری ہر پڑھنے اور سننے والے پر واضح ہوجاتی ہے مثلاً:
پانچ سو سن اکہتر جو سال آگیا
آمنہ بی کے گھر ان کا لال آگیا
بیس اپریل تھی روز دو شنبہ تھا
آمنہ بی کے گھر ان کا لال آگیا
بارہ تاریخ ماہ منور کی تھی
جس گھڑی آفتاب جمال آگیا

ہے اکیسویں ماہ رمضاں علی کی
مہینہ ہے رمضان مولا علی کا
ملا خیر سے عمرہ اکیسویں کو
خصوصی کرم ہے یہ مولا علی کا
ہوئے سینتیس ہجری میں دوبارہ حاضر
یہ فیضان ہے کس کا مولا علی کا

تھی ہجری چار سو ستر یکم رمضان ذیشاں تھی
ہوا تھا جس گھڑی دنیا میں آنا غوث اعظم کا

غوث اعظم کی ولادت کی
 سن چار سو ستر ہجری تھی
رمضان مبارک کی پہلی
سبحان اللہ سبحان اللہ

تاریخ وصال کتابوں میں
 لکھی ہے پانچ سو اکسٹھ میں
نو ماہ ربیع الآخر تھی
سبحان اللہ سبحان اللہ

تھی ہجری چار سو پانچ اور تھا اجمیر ہی مولد
ہوا دنیا میں آنا حضرت مسعود غازی کا
تھی ہجری چار سو چوبیس تاریخ رجب تیرہ
ہوا دنیا سے پردہ حضرت مسعود غازی کایہ چند اشعار بطور مثال پیش کی گئے لیکن اسی پر بس نہیں ہے بلکہ اور بھی ایسے اشعار ہیں جن میں تاریخ صوری کو نہایت حسین پیرائے میں اور خوش اسلوبی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جنہیں پڑھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے، 
زمانہ گزرتا رہے گا وقت لمحوں ، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کی صورت میں انجانی منزل کی طرف رواں دواں رہے گا مگر ہر دور میں یہ اشعار اپنے شاعر کی ہستی کی کلانی کے گیت گاتے رہیں گے اور صدیوں کے بعد بھی آنے والی نسلیں اس عظیم شخصیت کو عزت و عظمت کے بلند منبر پر کھڑا نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم گنگناتا محسوس کریں گی۔
مبرم

مبرم

مسلم قوم اور طبی نمائندگی۔۔۔۔

باسمہ تعالی
          عصر حاضر میں قوم مسلم کی پس ماندگی اور زبوں حالی سے ہر کوئی واقف ہے، زمانے کی تیز رفتاری کے سامنے مسلم طبقے کی پیش قدمی کچھوے کی چال ثابت ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا وجود و عدم برابر ہو کر رہ گیا ہے، کسی بھی قوم کو اپنا تشخص اور پہچان برقرار رکھنے کے لیے اسے دنیا کی ضرورت بنی پڑتی ہے اور اس بات کا احساس دلانا پڑتا ہے کہ ہمارا وجود بھی انسان اور انسانیت کے لیے نفع بخش اور کار آمد ثابت ہو سکتا ہے وگرنہ تو قوم گمنامی کی تاریکیوں میں گم ہوجاتی ہے،
 موجودہ حالات میں غور کرنے پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کل تلک ہمارا یعنی قوم مسلم کا وجود دنیا کے لیے اہمیت کا حامل تھا، صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کی عقل کے لیے ہمارے نقش قدم نشان راہ منزل تھے، یہاں تک کے ترقیاتی سفر میں دنیا کی راہبری کرنے والے ہمارے اسلاف کے چھوڑے ہوئے نُصُب و اشارات ہیں یہ بات میں ،،پدرم سلطان بودی،، رنگ و ترنگ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ فقط یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ آج جس چیز کے فقدان کے باعث ہم دنیا کی نظروں میں عضو معطل بن چکے ہیں وہ چیز ہمیں ورثے میں ملی تھی مگر ہماری نا اہلی نے ہماری موروثی چیز بھی ہم سے چھین لی اور ہمیں غیروں کی محتاج ایک جم غفیر بنا ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔
 نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم اپنا تشخص برقرار رکھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں جس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ان علوم سے نا آگاہی ہے جن کو آج ہم نے عصری علوم کا لیبل چسپاں کر کے اغیار کی جھولی میں ڈال دیا ہے، جی ہاں! یہی حقیقت ہے دیگر اقوام بالخصوص یہود و نصارٰی آج عصری تعلیمات ہی کی بنا پر عالمی قیادت کے علم بردار بنے بیٹھے ہیں، تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ماضی میں ان علوم کے ماہرین کی لمبی قطار موجود ہے جیسے *الحمیاری* ساتویں / آٹھویں صدی کے ہیں جن کا شمار کیمیاء دان *جابربن حیان* کے معلمین میں کیا جاتا ہے۔

*ابراھیم الفزاری*آٹھویں صدی کے ہیںخلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید کے تحقیقاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ *علم فلکیات* پر تحقیقی اور تحریری کام بھی کیا جن میں *اسطرلاب اور سالنامہ* کی ترتیب بھی شامل ہیں۔ ہارون الرشید کے کہنے پر یعقوب بن طارق کی شراکت میں ہندوستانی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا، ان کے بیٹے کا نام *محمد الفزاری* تھا، جو خود بھی اپنی جگہ ایک فلکیات داں تہے۔

*جابر بن حیان*(721ء تا 815ء) انہیں بابائے کیمیاء کا لقب دیا گیا ہے طبیعیات میں کام کیا علم الادویہ اور علم الہیئت میں تحقیق کی (چاند پر موجود حفرہ کو انہیں کی جانب منسوب کرتے ہوئے حفرۂ جابر / Geber crater کہا جاتا ہے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اور الحمیاری جیسے معلمین سے استفادہ اور علم حاصل کیا ان کی تصانیف میں *کتاب الکیمیاء* بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

*یعقوب بن طارق*مسلم ریاضی دان، فلکیات دان اور فلسفی تھے *محمد الفزاری* کے ساتھ سنسکرت کے فلکیاتی کام کو عربی میں ترجمہ کیا۔

الخوارزمی( 780ء ت تا 850ء )ریاضی، فلکیات، علم النجوم اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں ان کی تحقیقات و تحاریر موجود ہیں نیز ان کو *بابائے الجبرا* کا لقب بھی حاصل ہے ان کی معلومہ کتب میں کتاب الجبر و المقابلہ، کتاب الجمع و التفریق، بحساب الہند، کتاب صورۃ الارض مشہور ہیں۔

*علی ابن ربان الطبری*(838ء تا 870ء)طب میں ان کے تحقیقی و تحریری کاموں کی دنیا اج بھی معترف ہے، انہوں نے دنیا کا سب سے پہلا طبی دائرہ المعارف مرتب کیا نیز مشہور مسلم سائنس دان الرازی کے معلم بھی تھے، فردوس الحکمہ، تحفات الملوک حفظ الصحت وغیرہ کتابیں انہیں کی مرہون منت ہیں۔

*ابوبکرالرازی*(864ء تا 925ء)طب، فلسفہ و کیمیاء میں ماہر الفن تھے ان علوم پران تحقیق و تصنیف بھی موجود ہیں، کیمیائی مرکب الکحل کی دریافت کا سہرا ان کے سر ہے۔ جبکہ بعض ذرائع تیزاب كِبرِيت (sulfuric acid) کی دریافت بھی انہی سے منسوب کرتے ہیں۔

*ابوالقاسم الزہراوی*(936ء تا 1013ء)جدید آپرشن انہیں کی ایجاد ہے انہوں نے آپرشن میں کام آنے والے بہت سے اوزار بنائے جو اب تک استعمال ہو رہے ہیں۔
اس طرح کے ناموں کی ایک لمبی فہرست ملے گی جس سے یہ بات واضح طور سمجھی جا سکتی ہے عصری علوم کے حامل یہ شخصیات اپنے علم کی سیاہی سے قوم مسلم کی تاریخ کا درخشندہ باب لکھ رہے تھے۔ میکانکی سائینس، نیچرل سائینس، میڈیکل سائینس جیسے تمام عصری علوم کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے تھے، طبی میدان میں ان تحقیقات و تصنیفات سے آج بھی دنیا استفادہ کر رہی ہے اور ان کے بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں مزید تجربات کرکے در پیش جدید مسائل طب کو حل کررہی ہے جو کہ ہمارا حصہ تھی۔ آج بھی اگر مسلمان صرف طبی میدان ہی میں متحرک و فعال ہوجائیں اور طبی خدمات پیش کرکے اپنے وجود کا احساس دلادیں تو آج بھی وہ کس مپرسی کے ناگفتہ بہ حالات سے نکل سکتے ہیں۔
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیسے پیش قدمی کی جائے اور کس نہج پر کام کیا جائے؟ تو اس حوالے سے چند بنیادی نکات اور اہم پہلو پیش ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
1: دینی و عصری علوم کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ قوم مسلم دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ایک وہ جو عصری علوم کو ہی راہ فلاح سمجھتا ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت خالص مغربی تہذیب کے زیر اثر کرتا ہے جس کا نتیجہ الحاد و لادینیت کی صورت میں نکلتا ہے اور (معاذ اللہ) ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا بچہ قرآن وحدیث کو سمجھنا تو دور اس کو محض قدامت پسندوں یا ملوں کی کتاب سمجھتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ،، تبیان لکل شئی،، اور جمیع علوم بشمول دنیاوی و عصری علوم کا مرجع و ماخذ ہے۔
اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو عصری علوم کے متعلق منفی خیالات رکھتا ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کی نقیض اور لادینیت کی طرف لے جانے والا سمجھتا ہے اور اپنی اولاد کے ذہن و فکر میں اس کے تئیں نفرت ڈال دیتا ہے جس کا نتیجہ بایں صورت سامنے آتا ہے کہ وہ دنیا کے بڑھتے ہوئے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل پاتا اور یہی پس ماندگی کا سبب بن جاتا ہے،...... غرضیکہ دونوں ہی طبقے صحیح راستے سے بھٹک کر قوم کی ترقی کی راہ میں حائل ہورہے ہیں، لہذا سب سے پہلے دینی و دنیاوی علوم کے مابین حائل بعد کو قرب میں تبدیل کرنا ہوگا اور دونوں طرح کی ذہنیت کے مابین غلط فہمی کی دیوار کو توڑ کر عوام کے اندر مقتضائے حال کے مطابق اور عصری تعلیم سے ہم آہنگ تعلیمی بیداری لانی ہوگی۔

2: اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی ابتدائی دینی تعلیمات کو لازمی قرار دینے کے ساتھ اردو پڑھنے اور سمجھنے نیز کم از کم عربی پڑھنے کا معقول انتظام کیا جانا چاہیے تاکہ

3: موجودہ نصاب تعلیم میں ترمیم وقت کی اشد ضرورت ہے  کیونکہ خواہی نہ خواہی اس حقیقت سے منھ نہیں چرایا جا سکتا کہ درس نظامی کا موجودہ نو سالہ کورس اور تعلیمی نصاب طلبہ کے لیے بار گراں ہونے کے ساتھ خاطر خواہ نتیجہ خیز بھی نہیں رہا اور نہ ہی یہ وقت کی ضرورت پوری کرنے کو کافی ہے، تعلیم جاری رکھنے کے خواہشمند فارغین مدارس کے لیے تسلسل و ربط باقی رکھنا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ آنے والی راہیں ان کے لیے اجنبی و وحشتناک ہوتی ہیں.......... لہذا یہ ایسی ترمیم کا متقاضی ہے جس سے طالبین کو اہداف تک پہونچنے میں راستہ تبدیل کرنے کی چنداں حاجت نہ ہو۔

4: مدارس میں علم طب کا خصوصی نصاب ترتیب دیا جائے نیز تعلیم کے ساتھ تجربے کی سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے اور اس کے لیے لیبارٹریز کا قیام ازحد ضروری ہے۔

5: مدارس کا کسی بڑی یونیورسٹی سے الحاق کیا جائے تاکہ طالبین کو اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے دقت و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

6: بڑی یونیورسٹیوں میں مسلم ریزرویشن سیٹوں میں اضافے کے لیے سعی کرنی پڑے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلم طلبہ کا ایڈمیشن ہوسکے۔

7: مدارس اور دیگر اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کی بروقت اور صحیح رہنمائی اور انہیں ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے کوئی معقول انتظام ہونا چاہیے تاکہ طلبہ حالیہ کورسز کی تکمیل کے بعد آئندہ کی تعلیم کے منصوبے بلا شش و پنج کے اور بآسانی تیار کرسکیں کیونکہ طلبہ کے لیے یہ بھی ایک بڑی پریشانی ہوتی ہے اور صحیح رہنمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر طلبہ کش مکش کے شکار ہوتے ہوئے یا تو تعلیمی سلسلے کو منقطع کر دیتے ہیں یا پھر غلط انتخاب کے باعث اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے۔

8: مسلم غریب طبقے میں ڈھیروں تعداد ایسی ملے گی جو علمی تشنگی ، اعلی ذہنی اور علمی صلاحیت کے باوجود محض ناداری اور مفلسی کی وجہ سے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں تو ایسے طلبہ کی تعلیم کا کوئی ایسا بندوبست کیا جانا چاہیے جس سے وہ اپنے اخراجات بآسانی اٹھا سکیں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

راقم : محمد برہان الدین ربانی مصباحی مبرم

محمد برہان الدین ربانی مصباحی (مبرم)
X