مضامین
شادی کس سے کی جائے؟
موبائل فون میں قرآن مجید کی حیثیت۔۔۔۔۔
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 1
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 2
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 3
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر 4
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر پانچ
🌷تحریر: محمد برہان الدین ربانی مصباحی🌷
💧چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے💧
💧 ہر سر حرف پہ فریاد نہایت کیجے 💧
صبر آزما طویل خاموشی کے بعد ایک بار پھر قلم چیخ اٹھا اگر چہ قلم کی زبان بند کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں تھیں مگر جب دل تڑپنے لگتا ہے تو گونگے بھی چیخ اٹھتے ہیں طرز آغاز سے ہی آپ نے جان لیا ہوگا کہ ضرور درد و الم کی داستان کا کوئی نیا باب لکھا جانے والا ہے _________ جی ہاں وہی پرانا قضیہ۔۔۔۔۔۔ تنویر الاسلام کی مظلوم شخصیت *(خلیفہ تاج الشریعہ علامہ ناظم علی صاحب قبلہ مصباحی)* پر فتنہ پرداز افراد نت نئے حربے آزماتے رہے۔۔۔۔۔۔ زمانہ خاموش تماشائی بنا حالات کا مشاہدہ کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الزام تراشیوں و کذب بیانیوں کو عروج ملتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچائی شاہدین کی گونگی زبانوں اور ناظرین کی بے حسیوں کے تلے دم توڑتی رہی _____________ بلامبالغہ پوری دیانت و صداقت کے ساتھ کہتا ہوں *دوران طالب علمی میں مجھے فرائض کی انجام دہی کو لیکر استاد گرامی مولانا ناظم علی صاحب قبلہ سے زیادہ حساس کوئی دوسرا نظر نہیں آتا تھا* جس کا تذکرہ میں نے گزشتہ اقساط میں قدرے تفصیل سے کیا تھا اور یہی ساری خوبیاں ان کے مداحوں کی زیادتی کا باعث بنتی تھیں اور یہی خوبیاں دشمنوں کی زیادتی کا بھی باعث بنتی رہیں *لہذا حاسدین نے جھوٹ کا سہارا لے کر ان کی خوبیوں کو خامیوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردیں مختلف طریقوں سے ان کی ادارے کے تئیں خیرخواہی کو داغدار کرنے کی سازشیں رچیں ، یکے با دیگرے ان کو غلط طریقے سے قانونی پھندوں میں پھانسنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے اور کررہے ہیں_________* مگر میں نے ان کے تمام کرتوتوں کو زیر تحریر لاکر اپنا اور قارئین کا وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ناپاک سازشوں کے نہ رکنے والے سلسلے نے دوبارہ قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا __________ میں نے ابھی کہا کہ مجھے طالب علمی کے زمانے سے ہی حضرت سے زیادہ ذمہ داری کا احساس رکھنے والا دوسرا نظر نہیں آتا تھا ، *ایام تعلیم میں درسگاہ میں تشریف لانا اور پہلی گھنٹی سے لے کر ساتویں گھنٹی تک مسلسل تدریس میں مصروف رہنا ان کا شیوہ تھا* حتی کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے دو تعلیمی سال ایسے بھی گزرے ہیں جب دو کتابیں،، بدایۃ الحکمت ،، اورکافیہ ،، حضرت کے پاس تھیں اور پڑھنے کا وقت ساتویں آخری گھنٹی تھی اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اتنا دراز ہوجاتا کہ کھانا چھوٹ جاتا تھا (کیونکہ ساتویں آخری گھنٹی کے فوراً بعد کھنا تقسیم ہونے لگتا تھا) ہم آپس میں مزاحا کہا کرتے تھے کہ ،،پڑھاتے وقت حضرت گھڑی کی طرف دیکھنا بھول جاتے ہیں،،
آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں یہ واقعہ کیوں بیان کررہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل مخالفین نے ابھی حال ہی میں ایک نیا جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ مولانا ناظم صاحب درسگاہ میں پورا وقت دینے کے بجائے وقت سے پہلے ہی درسگاہ چھوڑ دیتے ہیں ، _______ *جب یہ خبر مجھ تک پہونچی تو میں مبہوت رہ گیا کہ خداوندا ! ان کو ذرہ برابر شرم حیا نہیں،ایسا جھوٹ سن کر شیطان بھی انگشت بدنداں رہ گیا ہوگا۔۔۔*
خیر آگے چلتے ہیں_______ ان کی شر انگیزی یہی منتہی نہیں ہوتی ہے بلکہ ان لوگوں نے ایسا جھوٹا الزام تیار کرکے ڈی ایم اوکے آفس میں حضرت کے خلاف نظم وضبط کی خلاف ورزی کا کیس کر دیا ، جب یہ خبر مولانا ناظم علی صاحب کو ہوئی تو انہوں نے از راہ استشہاد طلبہ سے سوال کیا کہ ،،تعلیم کے اوقات کیا ہیں؟،، طلبہ مقررہ وقت بتایا، پھر پوچھا کہ ،،میں کتنی دیر تک پڑھاتا ہوں۔۔۔۔؟،، بچوں نے اقرار کیا کہ حضرت پورا پورا وقت تدریس میں صرف کرتے ہیں ، پھر حضرت نے طلبہ سے اس کے متعلق تحریر مانگی جس میں طلبہ نے اپنی اپنی دستخطوں کے ساتھ اعتراف کیا تھا کہ مولانا ناظم علی صاحب تعلیمی اوقات میں ابتدا تا انتہا درسگاہ میں حاضر رہ کر درس دیتے رہتے ہیں ____________ *آپ غور کریں۔۔۔۔۔۔ یقیناً طلبہ کے یہ اعتراف نامے مفسدین کے لگائے ہوئے الزام کی قلعی کھول کر رکھ دیتے لہذا اب اس سے بچنے کے لیے تگ ودو شروع کردی اور اس کے گیے انہوں نے ایک اور غلیظ حرکت کی کہ طلبہ کو بلا بلا کر ان سے جبرا ایک تحریر لینی شروع کردی جس کا نفس مضمون یہ تھا کہ،، مولانا ناظم علی صاحب نے ہم طلبہ سے جبرا دستخط لیے تھے،، پہلے تو طلبہ نے ایسا جھوٹا تحریری بیان دینے سے صاف انکار کردیا تھا مگر ان کو اخراج وغیرہ کی دھمکیاں دی گئیں* _______ اپنے وطن سے دور ، اساتذہ کے رحم وکرم پر رہنے والے بچے حاسدین کی دھمکیوں سے کیونکر مرعوب نہ ہوتے ، نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ ان کی مرضی پر راضی ہو گئے *_مگر۔۔۔۔۔ ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ طالبان علوم نبویہ نے محض اخراج کی دھمکی کے زیر اثر اپنا تحریری بیان بدل کر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ان کو مستقبل میں قوم کی قیادت کی عظیم ترین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانی ہے اور اسی کی اہلیت اور صلاحیت پیدا کرنے کے لیے خود کو مدرسے کے حوالے کیا ہے اور قوم کی قیادت کے سلسلے میں بارہا ایسے مواقع آئیں گے جب حق گوئی و بے باکی ان کے عارضی خسران کا سبب بنتی نظر آئے گی اور وہی ان کی آزمائش اور امتحان کا وقت ہو گا تو کیا وہ اس وقت بھی ایسی ہی کم ظرفی کا مظاہرہ کریں گے؟؟؟ اور آج کی طرح اس دن بھی باطل کی زبردستیوں سے مرعوب و خائف ہوکر حق کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر لیں گے؟؟؟ اگر ایسا ہی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن قوم کی ذلت ورسوائی کا تاریخی دن ہوگا ، _______ طلبہ کو خود غور کرنا چاہیے کہ جو لوگ مدرسے اور طلبہ کے تئیں اپنی خیر خواہی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں انہوں نے اپنے مفادات کے لیے طلبہ کا کتنا غلط استعمال کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی خیر خواہی کہ ان سے ایسا کام لیا جارہا ہے جس کی حقیقت عیاں ہوتے ہی دنیا میں کذب بیانی کا ذلت آمیز داغ لگ جائے گا اور قوم کا اعتماد مجروح ہوگا اور آخرت میں دو دو جھوٹ کی وجہ سے رسوائی بھی مسلط کر دی ہوجائے گی ،،ایک جھوٹ تو یہ کہ مولانا ناظم صاحب نے جبرا دستخط لیے ،، اور دوسرا جھوٹ یہ کی مولانا ناظم صاحب وقت مقرر سے کم ہی تعلیم دیتے ہیں،،_* ________ (ایسے خیر خواہوں سے اللہ بچائے)
کجھ جی دار بچوں نے ان کی بے جا دھمکیوں کا اثر قبول کرنے سے انکارکردیا اور ایسا کوئی اقرار نامہ لکھنے سے منع کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ قوم ایسے افراد پر آنکھ بند کرکے بھروسا کرسکتی ہے اور کسی بھی موقعے پر یہ لوگ قوم و ملت کے مفاد کا سودا نہیں کرسکتے اللہ ایسوں کے سینوں میں چٹان جیسا دل عطا فرمائے (آمین)
_________تادم تحریر حالات ایسے ہی ہیں ، یہ تو ابھی حال کا واقعہ ہے اس کے علاوہ خاموشی کے زمانے میں انہوں نے ایسے ایسے گھناؤنے سازشی جال بچھائے جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ان حقائق سے بھی روشناس کراؤں گا۔
تحریر کا مقصد سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ شاہدین کی بے حسی دیکھ کر ان کی طرف سے مایوس ہوچلا ہوں اب ایک امید کی کرن اب بھی چمک رہی ہے کہ ممکن ہے قارئین میں کوئی ایسا ہو جو حق کی آواز کے ساتھ آواز بلند کرنے کا جذبہ رکھتا ہو جو ظالموں کو ان کے کیفرکردار تک پہونچا دے
🔊_کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دل فگاراں کا_🔊
🔊_کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی_🔊
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر چھ
✴️تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی✴️
✳️میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا✳️
✳️میں چپ رہوں توبڑی بےبسی سی ہوتی ہے✳️
قسط نمبر ۵ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ مولانا ناظم علی صاحب قبلہ پر مبنی علی الکذب یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ درسگاہ وقت مقررہ سے پہلے چھوڑ دیتے ہیں اور حقیقت حال برعکس ہے (یہاں پر لفظ برعکس معنی رکھتا ہے) جس کو مثال کے ذریعے میں نے واضح کیا تھا ۔
*یادرہے اس الزام کی بنیاد غالباً لسانی سبقت یا قلمی سہو کا نتیجہ ہے* (اب یہ بتا پانا مشکل ہے کہ وہ سہو مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے ہوا یا یہ سہو رجسٹر کے نگران کی طرف سے قصداً سرزد ہوا درآنحالیکہ رجسٹر غیر محل میں رکھا ہوا ہے) *مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اگر سہو حضرت کی طرف سے ہوا تو نگران پر لازم تھا کہ وہ ڈی۔ایم۔او کے وہاں شکایت درج کرانے سے قبل اس کی قابل تشفی تحقیق کرتا اور حضرت سے وضاحت طلب کرتا اور اگر یہ سہو ان کی جانب سے ثابت ہوجاتا پھر مناسب اخلاقی کاروائی کرنے کا مجاز تھا* مگر۔۔۔۔ یہاں تو معاملہ کچھ اور ہی نظر آتا ہے جس سے مجبوراً یہ سمجھنا پڑ رہا ہے کہ اگر حضرت سے ہی سہو ہوا ہے تو لازما یہ ایسے کسی موقعے کی تاک میں تھے اور اگر نگران کے قصداً سہو کا نتیجہ ہے تو پھر یقیناً یہ کسی منصوبہ بند سازش کے تحت ایسا کیا گیا۔
یہاں پر ایک قابل توجہ بات اور بتا دوں کہ مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے تحریری طور پر اس بات کی وضاحت بھی ہوچکی ہے کہ *،،آپ جس چیز کو بنیاد بنا کر مجھے ملزم گردان رہے ہیں وہ لسانی سبقت یا قلمی سہو کا نتیجہ ہو سکتی ہے ورنہ تو آپ نے سی سی ٹی وی کیمرے لگوا رکھے ہیں اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں وقت مقررہ سے کچھ پہلے درسگاہ میں جاتا ہوں اور مقررہ وقت کے بعد ہی باہر نکلتا ہوں،،* اب اس وضاحت کے بعد بھی حضرت کے خلاف قانونی چارہ جوئی چہ معنی دارد؟؟؟
اس کے ساتھ ہی میں قسط نمبر ۵ میں مذکور شرمناک حرکت کی طرف پھر توجہ مرکوز کردوں کہ حزب مخالف نے اپنے جھوٹے الزام کی تقویت کے لیے طلبہ کے صداقت سے پر تحریری بیان کو زبردستی تبدیل کرایا اور طلبہ کو جھوٹ بولنے اور لکھنے پر مجبور کیا ________ ان سارے حقائق کے تناظر میں قارئین غور فرمائیں حقیقت حال روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی فافھموا و تفکروا۔
اب آئیے ،،الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے،، کی مصداق ایک کہانی سنئیے .......... حزب مخالف کی طرف سے ایک مضحکہ خیز الزام عائد کیا جارہا ہے کہ مولانا ناظم علی صاحب نے ان لوگوں کو دھمکیاں دی ہیں اور نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں
واہ بھئی.........
بے خطا تھا حسن ہر جور وجفا کے بعد بھی
عشق کے سر تا ابد الزام ہی الزام تھا
ایک کہاوت ہے نا کہ ،،بھاگتا ہوا چور بچنے کے لیے خود بھی چور چور کی ہانک لگاتا بھاگتا ہے،، وہی حال یہاں پر بھی ہے _________ جی ہاں ! دھمکیاں دینے کی پوری ذمے داری حزب مخالف نہایت دیانت کے ساتھ پوری کررہا ہے........ *ایک نہیں بہتری مثالیں مکمل شواھد کے ساتھ موجود ہیں کبھی بذریعہ فون چنگیزی اکڑ کے ساتھ کہا جارہا ہے* ____*،،میری طرف سے بہت سخت جواب آئے گا،،*____ *تو کبھی نوٹس کی صورت میں تانا شاہی جھاڑی جارہی ہے ___ کبھی درسگاہ میں انسانی لباس میں غنڈے بھیجے جارہے ہیں ___ تو کبھی کرائے کے ٹٹو لاکر ادارے کی فیلڈ سے دھمکی آمیز اشارے کیے جارہے ہیں اور الزام مظلوم پر واہ.....*
اپنا الزام میرے سر ڈالا
یار تم نے کمال کر ڈالا
جی ہاں ! چند مہینوں قبل کی بات ہے کہ ایک صاحب جو کہ حزب مخالف سے متعلق ہیں دارالعلوم میں تعلیمی اوقات کے اندر تشریف لائے (تعلیمی اوقات کی قید اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ آنے والے جناب جن صاحب سے ملاقات کے لیے آئے تھے انہوں نے تعلیمی اوقات میں غیر متعلق آدمی کے دخول پر پابندی عائد کی تھی) خیر آنے والا شخص اپنی مطلوبہ شخصیت سے ملاقات و مشاورت کے بعد مولانا ناظم علی صاحب کی درسگاہ میں آتا ہے اور حضرت سے لایعنی باتیں کرتے کرتے مقصد اصلی پر آتا ..... پہلے تو اپنی شیخی بگھارتا ہے پھر دھمکیاں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ _____*میں فلاں ( فلاں،،حزب مخالف کی نمایاں شخصیت ہے) کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہوں حتی کہ اگر قتل کرنا پڑے تو وہ بھی کر گزروں گا _____ اور جاتے جاتے صاف صاف الفاظ میں یہ کہہ گیا کہ _____ مولانا ناظم صاحب آپ کی گردن پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے _____*
قارئین غور کریں قتل کی دھمکی تو جناب کی جانب سے مل رہی ہے اور الٹا الزام مولانا ناظم صاحب کے سر ڈالا جارہا ہے (خدایا رحم فرما)
یہ حیوانیت جرم کرتی رہے گی
شرافت پہ الزام آتا رہے گا
*ایسی ہی دوسری مثال بھی ہے کہ حزب مخالف کی دوسری گھوٹالے باز فتنہ پرداز شخصیت مولانا ناظم علی صاحب پر اپنے اندر چھپی ہوئی بدمعاشی اور غنڈہ گردی عیاں کرنے کے لیے چند غنڈوں کو لےکر مدرسے کی فیلڈ میں آتا ہے اور وہ سب مولانا ناظم علی صاحب کی طرف خطرناک دھمکی آمیز اشارے کرنے لگتے ہیں اور مولانا ناظم علی صاحب کی تصاویر بھی بناتے ہیں ، (خدا جانے ان تصاویر کا مصرف کیا رہا ہو یہ ابھی بھی صیغہ راز میں ہے لیکن اتنا تو یقینی ہے کہ وہ تصویریں یادگار کے لیے نہیں تھیں) پھر علاقے کے چند افراد کی مداخلت کی بنا پر انہیں بھاگنا پڑتا ہے..........*
یہ ہیں اپنی شرافت اور بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے کرتوت اور الزام بے گناہ کے سر .....؟ ارے کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجیے جناب !
اپنی لغزش کو تو الزام نہ دے گا کوئی
لوگ تھک ہار کے مجرم ہمیں ٹھہرائیں گے
*سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مولانا ناظم علی صاحب کا وجود مخالفین کی نظروں میں کیوں چبھ رہا ہے؟* (کسی غیر متعلق آدمی کا سوال) اس سوال کا جواب گزشتہ ابتدائی حالات و واقعات پر نظر دقیق ڈالنے سے حاصل ہوتا ہے کہ *مخالفین کی مخالفت انہیں امور سے شروع ہوئی جن امور کا ہونا ادارے کے کے لیے سود مند تھا مگر..... ساتھ ہی ان میں مخالفین کا ذاتی زیاں اور نقصان نظر آتا تھا اور حضرت ادارے کی خیرخواہی کو مد نظر رکھ کر ان امور کی حمایت کرتے رتے تھے* ........ اب چونکہ مخالفیں ان کی بجا باتوں کا رد کرنے سے رہے ورنہ تو ان کا وہ چہرہ سامنے آجاتا جو چیخ چیخ کر ان کی مفاد پرستی کا اعلان کرتا لھذا انہوں نے اسکیم کے تحت اس وجود کو ہی بے دخل کرنا چاہا جو مستقبل قریب یا بعید میں ان کی بے پردگی کا باعث بن سکتا تھا اور ظاہر ہے حضرت کی غیر موجودگی میں وہ لوگ خود ہی سیاہ و سفید کے مالک ہونگے پھر نہ تو کوئی ان کو ان کے سیاہ کارناموں سے منع کرنے والا ہوگا اور نہ ہی کوئی اعتراض کرنے والا............. اور ان کے اس خفیہ ایجنڈے کی طرف اشارہ جناب کا یہ جواب کررہا ہے جو کسی کے سوال کے جواب میں دیا تھا کہ *____مدرسہ میرا ہے میں جو چاہے کروں____* جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ مدرسہ کسی کے بھی باپ کی جاگیر نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے کیونکہ ادارے کی موجودہ مقام تک پہونچانے میں قوم کا مال شامل ہے لہذا اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آتی ہے جس سے ادارے کے نظم ونسق یا اس کی تعلیمی ماحول پر منفی اثرات پڑ رہے ہوں تو قوم کو حق حاصل ہے کہ وہ موجودہ کارگزار سے سوالات کرے اور اس کار گزار پر لازم ہے کہ جن کے چندوں سے بنائی ہوئی عمارت میں رہ رہا ہے اس کو تسلی بخش جواب دے تاکہ انہیں اطمینان رہے کہ میری دولت غلط جگہ پر استعمال نہیں ہوئی
یہ بات یقینی ہے کہ حضرت کے خلاف یہ ساری سازشیں اور مکڑ جال فقط مولانا ناظم علی صاحب کو ادارے سے نکال دینے کے لیے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے کہ حزب مخالف کا وہی شخص جو مولانا ناظم صاحب کو غنڈوں کے ذریعے دھمکانے کی کوشش کررہا تھا اس شخص نے ادارے کے ایک استاد کی درسگاہ میں طلبہ کی موجودگی میں کہا کہ: *____میں نے مولانا ناظم کو اگر نکال نہ دیا تو میرا نام فلاں نہیں____* اس جملے نے صراحت کردی کہ مولانا ناظم علی صاحب کو نکال دینا ہی ان کا ٹارگٹ ہے اور اسی کے لیے اتنے لمبے چوڑے کھڑاگ پھیلائے گئے ہیں اور ذہنی اور جسمانی طور پر مسلسل ٹارچر کیا جارہا ہے اور ٹارچر کرنے کے لیے عوام کی نظروں سے چھپ کر کون کون سی غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں اس کا تفصیلی ذکر کارے دارد ۔۔۔۔۔۔۔۔
خود اپنے قتل کا الزام ڈھو رہا ہوں ابھی
میں اپنی لاش پہ سر رکھ کےرو رہا ہوں ابھی
*لیکن ان کے لیے یہ پریشانی سب سے بڑی ہے کہ اگر انہوں نے بجبر و زبردستی انہیں ادارے سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تو انہیں قانون و عوام کی عدالت میں عذر معقول پیش کرنا پڑے گا جو نہ ان کے پاس تھا اور نہ ہوگا (ان شاءاللہ) لہذا انہوں نے حضرت پر ایسے حملے شروع کیے جن سے گھبرا کر خود ہی مستعفی ہو جائیں یا پھر اپنا تبادلہ کرالیں مگر مولانا ناظم علی صاحب نے ان کی مخالفتوں اور حملوں کا حتی الوسع دفاع کرتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی کی طرف توجہ دی* _______ مگر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مخالفین کو مقصد برآری کی جلدی ہے لہذا اب انہوں نے مولانا ناظم علی صاحب پر ایسے اوچھے حملے شروع کر دیے جس کے اصلی مقاصد دیکھنے اور سننے والے کی نگاہ سے مخفی ہوتے ہیں اور ایسے بے اصل و بے بنیاد الزامات کا سہارا لیا گیا جس سے نہ صرف یہ کہ مولانا ناظم علی صاحب پریشان ہوجائیں بلکہ ان کی مدرسے سے متعلق خیرخواہی پر بھی سوالیہ نشان آجائے ساتھ ہی عوام کے درمیان ان کی شبیہ بھی خراب ہو جائے اور ان کی بے داغ شخصیت داغ دار ہوجائے نیز ان کی عوامی مقبولیت بھی خطرے میں پڑ جائے .......... اور ان لغو الزامات کے متعلق میں نے پچھلی اقساط میں ذکر کیا ہے مثلاً چندے کو لےکر الزام ، مدرسے کی ذمے داری سے متعلق الزام ، تعلیمی و تدریسی فرائض کی انجام دہی سے متعلق الزام وغیرہ وغیرہ _________ *قارئین کے لیے مقام تفکر و تدبر ہے کہ اگر یہ بے بنیاد و بے اصل الزامات فریب دہی اور دھوکا دھڑی کے سہارے کسی قدر ثابت ہوجائیں تو ان کو دو فائدوں میں سے ایک یقینی طور پر حاصل ہوجائے وہ یہ کہ یاتو عوام جوش میں آ کر خود ہی مولانا ناظم علی صاحب سے استعفے کا مطالبہ شروع کر دیتے یا کچھ نہیں تو مخالفین کی ایسی کسی کاروائی پر اعتراضات و سوالات نہیں کرتے* __________ بہر حال دونوں ہی صورتوں میں ان کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں عوامی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا _______ اور رہا قانونی جواز تو اس کے لیے حزب مخالف نے ایسی شرمناک و رذیل حرکت کا مرتکب ہوا ہے کہ جس کو بالعموم عوام اور بالخصوص علمائے کرام کبھی بھی معاف نہیں کرسکتے وہ یہ کہ *مولانا ناظم علی صاحب پر جھوٹا دہشت گردی کا الزام عائد کرنے کی ناکام کوشش کی آہ....... ان نام نہاد خیرخواہان قوم و ملت نے یہ تک نہ سوچا کہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ ایسی کریہہ اور گھٹیا حرکت کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کا خمیازہ نہ صرف ادارے کو بلکہ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے اور علمائے کرام کی پاکیزہ جماعت پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہو سکتا ہے* (اللہ سمجھ عطا فرمائے) ________ بہر صورت اس مبنی علی الکذب الزام کا فائدہ اور نتیجہ اظہر من الشمس ہے وہ یہ کہ اب قانونی طور پر نہ صرف ان کو ہمیشہ ہمیش کے لیے بے دخل کردیا جاتا بلکہ قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ........... (اللہ سلامت رکھے)
جب ان سارے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو لامحالہ سوچنا پڑتا ہے کہ یقینا حزب مخالف مولانا ناظم علی صاحب کی مخالفت میں کسی بھی حد سے گزر سکتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ہو نہ ہو وہ حادثہ جو چند مہینوں قبل پیش آتے آتے رہ گیا تھا اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ان اختلافات سے ضرور ہے (اگرچہ مکمل شواھد نہیں مل سکے جن بنیاد پر اس کو کسی فرد خاص سے متعلق کیا جا سکے مگر قرائن شاھد ہیں کہ وہ واقعہ کسی سازش کا نتیجہ ضرور ہے) ______ *دراصل ہوا یہ کہ مولانا ناظم علی صاحب روم میں موجود تھے کہ اچانک باہر سے کسی عورت کی آواز سنائی دی جو مولانا ناظم صاحب کے روم کے متعلق کسی طالب علم سے پوچھ رہی تھی حسن اتفاق کہیے یا اللہ رب العزت کا فضل خاص کہ اس وقت حضرت کی بارگاہ میں قصبے کے کچھ ذمہ دار اشخاص بھی موجود تھے جب انہوں نے کسی عورت کی آواز سنی تو ان میں سے ایک صاحب نے دروازے سے جھانک کر دیکھا اور وہ اس عورت کو پہچان گئے لہذا انہوں نے عورت کو ڈانٹ کر بھگایا اور وہ عورت بغیر کسی سوال جواب کے رفو چکر ہو گئی اس عورت کے جانے کے بعد صاحب مذکور نے بتایا کہ وہ عورت بدنام زمانہ اور مشہور فاحشہ ہے جس نے اس پہلے بھی کسی کو بدنام کرنے لیے اجرت پر ایسے کام کرتی رہی ہے* (اللہ کی پناہ) ______ چھان بین کے دوران پتہ چلا کی وہ عورت ایک روز پہلے بھی آئی تھی اور دارالعلوم کے گیٹ پر کسی سے مولانا ناظم علی صاحب کے روم نمبر کے متعلق دریافت کیا تھا مگر اتفاق کہ حضرت اس وقت موجود ہی نہیں تھے_______
اب میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس خوفناک و شرمناک قریب الوقوع حادثے کا ذمے دار کون ہے؟ اور کس نے اس کی پلاننگ کی؟ کس کے توسط سے اس عورت نے یہ مذموم اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت کرنے کی کوشش کی؟ *لیکن اتنا تو میں ضرور کہوں گا کہ جب دارالعلوم میں دونوں جانب گیٹ لگے ہوئے ہیں اور وہ بند بھی رہتے ہیں تو آخر وہ عورت اندر کیسے داخل ہوئی؟ کیا وہ اتنی ہی پاور فل ہے کہ جب چاہے دارالعلوم میں گھس کر کسی بھی استاذ کے کمرے میں داخل ہوجائے؟ یا وقتی طور پر اسے با اختیار بنایا گیا؟ درآنحالیکہ گیٹ لگوانے کی غرض و غایت ہی غیر متعلق افراد کا داخلے پر روک لگانا ہے*
غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر مولانا ناظم علی صاحب کے روم میں علاقے کے چند افراد موجود نہ ہوتے، اور اس عورت کو ایک بار روم کے اندر داخل ہونے کا موقع فراہم ہوجاتا تو حالات کتنا سنگین رخ اختیار کر لیتے کچھ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا ، اور مولانا ناظم علی صاحب کی قرب و جوار میں کیا حیثیت ہوتی کچھ نہیں کہا جا سکتا_______ اور ایسے معاملات میں لوگ تحقیق و تفتیش کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے اور ساری خطائیں ایک ہی کے سر مونڈھ دی جاتی ہیں (الأمان والحفیظ)
ان حالات کے پیش نظر اہل قریہ سے میری بس اتنی سی گزارش ہے کہ آپ سے کچھ ہوسکے یا نہ ہو سکے لیکن اتنا ضرور کرنا کہ کبھی ایسے حالات ہوں تو خدارا تحقیق و تفتیش ضرور کرنا نیز میں یہ بھی بتا دوں کہ خدا نخواستہ مولانا ناظم علی صاحب کو کوئی ناگہانی حادثہ پیش آئے تو اسے محض اتفاق پر محمول نہ کیا جائے بلکہ ذمے دار کا پتہ لگایا جائے فقط
🌻کہیں تو مستقر ہوگا صدائے دلفگاراں کا🌻
🌻کہیں تو جاکے اہل درد کی آواز ٹھہرے گی🌻
شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر سات
✍️تحریر : محمد برہان الدین ربانی مصباحی✍️
✳️ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولو✳️
✳️سیکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے✳️
جی ہاں ! مجھے اپنے دوست مولانا اقلیم علیمی صاحب کا ایک تبصرہ یاد آرہا ہے جو دارالعلوم تنویر الاسلام کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں قطعی غلط نہیں ہے انہوں نے کہا تھا کہ *،،آج اگر تنویر الاسلام کو مرکزی درسگاہ کی بجائے مرکزی فسادگاہ اور مرکز علم و فن کی بجائے مرکز ظلم وستم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،،* ______ واقعی حالات ایسے ہی ہیں ۔ *،،دشمن کو ہر ممکن ضرر پہونچانے کی کوشش کرو،،* والی پالیسی پر سختی کے ساتھ عمل کیا جارہا ہے ۔ یقین مانیے....... اگر مولانا ناظم علی صاحب کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو اب تک پے در پے حملوں کی تاب نہ لاکر اپنے تمام تر جائز حقوق سے دست بردار ہو کر مستعفی ہو جاتا یاپھر کچھ نہیں تو حالات سے سمجھوتا کرکے ادارے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا لیکن قابل ستائش ہے مولانا ناظم علی صاحب کا استقلال کہ ان حالات میں بھی ہمت و حوصلے کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ کل حضرت سے بات ہوئی تو دوران گفتگو انہوں نے ایک جملہ کہا جس سے سن کر ان کی کامل یقینی اور عالی ہمتی کا اندازہ ہوتا ہے انہوں نے فرمایا: _____*حق کی راہ میں بڑی سے بڑی پریشانیاں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن حق کو مٹایا نہیں جاسکتا مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن حق غالب آکے ہی رہے گا* (انشاءاللہ) _____ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال نازک ترین ہی ہے جبکہ جان و مال عزت وآبرو وغیرہ سب ہی خطرات میں گہرے ہوں.............
جی ہاں ! لفظ ،،مال،، میں نے رسما اور روا روی میں نہیں کہا بلکہ اس کی بھی ایک الگ داستان ہے جب سیاہ کاریوں کا فسانہ چل ہی پڑا ہے تو یہ بھی سن لیں........... مولانا ناظم علی صاحب کی ماہانہ تنخواہوں میں سے ناجائز طور پر کٹوتی کرکے ان کے ساتھ فراڈ کیا گیا ______ ~واقعے کی کسی قدر تفصیل یوں ہے کہ مولانا صاحب نے لون پر کچھ رقم لی تھی جس کی ادائیگی قسطوں پر کی جارہی تھی ، مہینوں مقررہ روپیوں کی ادائیگی قسطوں کی شکل میں جاری رہی پھر ایک دن مولانا ناظم صاحب نے منشی سے اپنا جی۔پی۔ایف رجسٹر طلب کیا یہ جاننے کے لیے کہ قسطوں کی ادائیگی مکمل ہوئی یا نہیں، مگر...... منشی رجسٹر دکھانے سے ٹال مٹول کرتا رہا پھر ایک دن مولانا ناظم علی صاحب نے آفس میں جاکر جی۔پی۔ایف رجسٹر طلب کیا تو اس نے کہا کہ رجسٹر مینیجر کے گھر ہے حضرت نے سوال کیا کہ میرا رجسٹر آفس میں ہونا چاہیے تو منیجر کے گھر کیوں ہے ؟ درآنحالیکہ کمیٹی متنازعہ بھی ہے جواب تسلی بخش نہیں ملا پھر منیجر کے گھر سے منشی رجسٹر لایا تو رجسٹر کی حالت مشکوک نظر آئی ، اس میں متعدد جگہوں پر وائٹینر لگا ہوا تھا پھر اتفاقاً ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ رجسٹر کا ایک ورق پھاڑ ڈالا گیا ہے اور پھاڑا ہوا ورق ایک رجسٹر کے نیچے دبا ہوا ملا جسے چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی جس میں تین لاکھ چوالیس ہزار چونتیس روپے درج تھے اس کے متعلق سوال کیے جانے پر کوئی قابل اطمینان جواب نہ مل سکا اور جب مولانا ناظم صاحب نے اپنا پاس بک پرنٹ کروایا تو معلوم ہوا کہ کافی رقم کی ہیرا پھیری ہوئی ہے ، جب اس گھوٹالے کا انکشاف ہوا تو مولانا ناظم صاحب نے منشی سے کہا کہ میں نے لون پاس کرانے کے لیے درخواست دی تھی مگر اب مجھے لون نہیں چاہیے اور مجھے میرا جی۔پی۔ایف رجسٹر اور سروس بک اور کچھ اور ضروری کاغذات ہیں ان سب کو واپس کردو ، تو یہ سارے کاغذات کی واپسی سے انکارکردیا گیا اور انکار کے الفاظ یہ تھے جو کہ تمام اسٹاف کی موجودگی میں پرنسپل روم میں ادا کیے گئے *،،میں نہ تو لون پاس کراؤں گا نہ ہی کاغذات واپس کروں گا جو کرنا ہو جاکر کرلو،،*~ ________ یہ ہے گھوٹالے کی تھوڑی سی تفصیل پھر اسی فراڈ کو لیکر مسلسل کشیدگی اور بحث و تکرار جاری رہی متعدد بار منشی کی طرف سے جارحانہ کاروائی بھی کرنے کی کوشش کی گئی (یاد رہے کہ پچھلی قسط میں میں نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا تھا جو کرائے کے غنڈے لاکر مولانا صاحب کو دھمکی آمیز اشارے کررہا تھا وہ یہی منشی ہے) جس کی مکمل تفصیل اگر کسی کو مطلوب ہو تو مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرسکتا ہے ______________ *اب اہمیت کی حامل اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ حزب مخالف سب کچھ جاننے کے باوجود گھوٹالے باز کا ہم جلیس و پشت پناہ نظر آرہا ہے اور اس کے ساتھ مل کر مولانا ناظم علی صاحب کے خلاف قانونی کارروائی کرتا ہوا نظر آرہا ہے جس کی بنا پر یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے کہ ،،کیا اس گھوٹالے میں ایک سے زائد لوگ بھی ہوسکتے ہیں؟،،*
یہ بھی وضاحت کردوں کہ منشی کی ذات اس سے پہلے بھی اسی قسم کے فراڈ میں ملوث پائی گئی تھی _____ ~ہوا یہ تھا کہ مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ کے امتحان کے لیے امید واروں نے فارم بھرے تھے جس کی فیس بھی منشی کے دفتر میں جمع ہوچکی تھی مگر جب امتحان کا ایڈمٹ کارڈ جاری کیا گیا تو پرائیویٹ طور پر فام بھرنے والے امیدواروں کے ایڈمٹ کارڈز نہیں آئے جب انہوں نے دارالعلوم میں آکر ہنگامہ کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ منشی نے پیسے لینے کے باوجود فارم کو آن لائن نہیں کرایا اور پیسے ذاتی جیب میں چلے گئے~ ، بعد میں کچھ کے پیسے واپس تو کیے مگر دو طرح کا نقصان پھر بھی ہوا ایک یہ کہ امیدوار اس سال امتحان سے محروم رہ گئے دوسرے یہ کہ ادارے کے تئیں عوام کا اعتماد مجروح ہوگیا۔
اور اب حال یہ ہے کہ حزب مخالف مولانا ناظم علی صاحب کے ساتھ ہوئے فراڈ کا منکر نظر آرہا ہے اور مجرم کو مکمل تحفظ فراہم کررہا ہے (قارئین کو یاد ہوگا کہ دوسری قسط میں میں نے مولانا ناظم صاحب کے روم سے بچوں کے کچھ روپیوں کے چوری کا قصہ ذکر کیا تھا جس میں حزب مخالف کے ایک شخص نے مولانا صاحب سے صاف طور یہ کہہ دیا تھا کہ میں کہتا ہوں کہ چوری ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ ایک سازش کے تحت آپ نے یہ ڈھونگ رچا ہے) جبکہ ان کے پاس مولانا ناظم علی صاحب کے پیش کردہ دلائل وشواہد کا جواب نہیں ہے ، *اب اسے ہٹ دھرمی اور سینہ زوری نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ مولانا ناظم علی صاحب نے شرعی اصول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ،،البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر،، یعنی مدعی گواہ پیش کرے اور نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ اپنے انکار پر حلفیہ بیان دے،، کی رو سے مجھ پر بینہ پیش کرنا ہے جو کہ میں نے پیش کردیا اور ابھی اگر آپ کو انکار ہے تو آپ حلف اٹھائیں اور مجھ پر واجب نہ ہوتے ہوئے بھی میں بھی حلفیہ بیان دینے کے لیے راضی ہوں،، ______ مگر حزب مخالف نے قسم کھانے سے صاف انکار کردیا جس پر مولانا ناظم علی صاحب نے کہا کہ ،،شریعت کی رو سے آپ پر قسم کھانا لازم ہے لہذا آپ کو جبراً قسم کھانی پڑے گی،،*
قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ حزب مخالف کے اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟ *ایک بات میں ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص انانیت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ اسی وقت کرتا ہے جب اس کے پاس معقول دلائل نہیں ہوتے اور خود اسے بھی احساس رہتا ہے کہ دلائل و شواھد اس کے خلاف ہی جائیں گے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان زور و زبردستی اور دھمکیوں کے بل بوتے اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے* ________ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں نہ تو کوئی دلیل پیش کی جارہی ہے اور نہ ہی حق کو قبول کیا جارہا ہے بلکہ دھونس و دھاندلی، جبر و دھمکی اور غیر متحقق و بے بنیاد الزامات سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مقصد............؟ تاکہ ہم اپنی شرائط پر مولانا کو صلح پر مجبور کر دیں اور مولانا اپنے تمام حقوق سے دست بردار ہوجائیں، اور گھوٹالے کی پردہ پوشی ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر
💢گمان شب کے اندھیروں سے نور نکلے گا 💢
💢 مجھے یقیں ہے کہ سورج ضرور نکلے گا 💢
تنویر الاسلام کی ایک مظلوم شخصیت قسط نمبر آٹھ
✍️ *تحریر: محمد برہان الدین ربانی مصباحی*
🌻 *_صداقت ہوتو دل سینےسےکھنچنےلگتےہیں واعظ_* 🌻
🌻 *_حقیقت خود کو منوالیتی ہے‘ مانی نہیں جاتی_* 🌻
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خطا پر ہوتے ہوئے بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ صواب پر ہے ، حق پر نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو حق پر سمجھتا ہے اور یہ غلط فہمی اس وقت ہوتی ہے جب اس کو حقائق کا علم نہیں ہوتا یا ہم جلیس حضرات حقائق کا علم ہونے نہیں دیتے اور اس میں ہم جلیسوں کے مفاد پنہا رہتے ہیں اور ان مفادات کا حصول بغیر شخص مذکور کے ناممکن ہوتا ہے___________
حرفِ غلط کو سُن کر درپے نہ خوں کے ہونا
جو کچھ کہا ہے میں نے پہلے اُسے سہی کر
یقین مانیں ....... میں نے سارے حالات کا از سر نو جائزہ لیا کافی غور کیا کہ حق و باطل کے درمیان تمیز ہوجانے کے باوجود آخر تنویر الاسلام کے فتنے فرو کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ تو دوہی صورتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ کہ حزب مخالف ہٹ دھرمی پر آمادہ ہے اور حق کے ظاہر و باہر ہونے کے باوجود اسے نہیں قبول کرنا چاہ رہا ہے اور کچھ دنیوی مفادات کے حصول کے لیے باطل کے غلبے کا خواہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن ظن مذکورہ صورت کی تردید کررہا ہے کہ حزب مخالف جہاں اعلی قسم کے جاہلوں اور فتنہ پروروں پر مشتمل ہے وہیں قابل قدر علما بھی موجود ہیں جن کے بارے میں ظن غالب یہی کہتا ہے کہ وہ ان اظہر من الشمس حقائق سے آگاہی کے بعد باطل پرستوں کا ساتھ نہیں دے سکتے _____________ لہذا دوسری صورت ہی سمجھ میں آتی ہے کہ حزب مخالف کے وہ افراد جن کی بد نیتی اور بد دیانتی عیاں ہے ان کو چھوڑ کر بقیہ افراد کو اب تک اندھیرے میں رکھا جارہا ہے یا ان کو صحیح فیصلے تک پہونچنے ہی نہیں دیا جارہا ہے اور غلط تاویلیں کر کے غلط کو صحیح کرکے پیش کیا جارہا ہے _______
لوگ باتیں بنانے پہ ایسے تُلے
چُھپ گئی ہر حقیقت فسانوں کے بیچ
لہذا آج میں صرف انہیں حضرات سے مخاطب ہوں جو گندی ذہنیت افراد کے درمیان پھنس کر نادانستگی ہی میں سہی خود کو اور تنویر الاسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں *چونکہ میں بھی کبھی اسی دارالعلوم کے بام ودر کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرچکا ہوں یہ دارالعلوم میرا بھی مادر علمی ہے لہذا دیگر فارغین تنویر کی طرح میرا بھی فکر مند ہونا بجا ہے ، فرق فقط اتنا ہے کہ میں نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی فکر مندی کا اظہار نوک قلم سے کررہا ہوں جو کہ میرا حق ہے مقصد بس یہ ہے کہ حقیقت حال کو اجاگر کرنا اور ضرر رساں عناصر کی پردہ دری کرنا ہے*
نہ بک سکی کسی بازارِ مصلحت میں کبھی
مری زباں کی صداقت مری اَنا کی طرح
چونکہ مجھے پہلے سے ہی شبہ ہے کہ شر پسند عناصر نے کچھ ایسی شخصیات کا سہارا لیا ہے جن پر مجھے اور مجھ جیسے متعدد فارغین تنویر کو کلی اعتماد تھا۔ جیسا کہ پہلی قسط میں ہی میں نے تذکرہ کیا تھا ، ساری صورتحال کا علم ہوتے ہی مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ خداوندا ! یہ کیسی صورت حال ہے کہ جہاں دیدہ اور معزز شخصیات بھی فتنے میں ملوث نظر آرہی ہیں جن کو حق کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اور تبھی میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ غیر شعوری طور پر ہی سہی یہ شخصیات شرپسندوں کی آلہ کار بن گئی ہیں ۔
*بڑے ہی احترام سے ان شخصیات کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ اب تک کے حادثات و واقعات اور ان کے نتائج کا محاسبہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ یقینا آپ اب تک خطا پر تھے اب بھی اگر آپ سب چاہیں تو ان سارے مسائل کا تصفیہ ہوسکتا ہے اور اسی میں ادارے کی بھلائی مضمر ہے ورنہ تو اس کا مستقبل کچھ پرامید نظر نہیں آتا* (اللہ رحم فرمائے) چلیے میں ہی شروع سے یاد دلاتا ہوں اور آپ کما حقہ دیانت کے ساتھ تفکر و تدبر کے ساتھ سنیں۔
🔘 تنویر الاسلام کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر مولانا ناظم علی صاحب کے روم میں بچوں کی چوری کا معاملہ تھا سارے قرائن، گواہ اور ثبوت چور کے خلاف تھے مگر تسلیم نہیں کیا گیا آخر کیوں؟ جبکہ اس کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں تھی.....؟
🔘 کسی کے بھڑکانے پر یہ کہہ دیا گیا کہ*،،مولانا ناظم صاحب ملزم بچے کے سرپرست کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں،،* اور بلا دلیل کے اس الزام کو تسلیم کرلیا گیا اور دو شخصیات کے مابین بد گمانیوں کی دیوار پڑ گئی جو آگے چل سنگین نتائج اور فتنہ شدید کا سبب بن گئیں۔
🔘 اسی چوری کے معاملے پر اساتذہ کی گفت و شنید کے درمیان ایک استاد نے یہ بات کہہ دی کہ *،،چوری ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ یہ مولانا ناظم صاحب نے ایک سازش رچی ہے،،* غور کریں ایک ذمہ دار استاد ایسی غیر ذمے دارانہ اور بے اصل و بے دلیل بات کہہ دے اور اس کو خاموشی کے ساتھ قبول بھی کرلیا جائے یہ کہاں تک درست ہے.....؟ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں _اگر چہ میرے پاس کوئی دلیل نہیں_ کہ یہ بات اور اس سے پہلی والی بات سوچی سمجھی پلاننگ کے ساتھ کہی گئی اور پھوٹ ڈالنے میں ان دونوں جملوں کا اہم کردار رہا ہے۔
🔘 مولانا ناظم علی صاحب پر چندہ نہ کرنے کا الزام لگایا گیا نیز ان کو مدرسے کا بد خواہ گردانا گیا_______ کیا الزام لگانے والے مدلل طریقے سے اس الزام کو ثابت کرسکتے ہیں؟ کیا آپ اس الزام میں ذرہ برابر بھی صداقت کی بو پاتے ہیں؟ یقیناً نہیں ۔ تو جب یہ الزام مولانا صاحب پر لگایا گیا تو آپ نے اسے تسلیم کیوں کرلیا؟ اگر آپ نے تسلیم کیا تو کیا آپ اتنے ہی غیر ذمے دار ہیں کہ آپ کے درمیان رہنے والے ایک عالم پر جھوٹا الزام عائد کیا جائے اور آپ بے چون وچرا بلا دلیل تسلیم کرلیں؟ جبکہ دارالعلوم کے آفس میں ہر سال کا ریکارڈ ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کہ کس نے کتنا چندہ کیا ہے اس ریکارڈ سے ساری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی مگر ایسی کوئی تحقیق کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی کیوں.......؟ اگر کسی نے کسی سال چندہ نہیں کیا تو بجائے اس کو بدخواہ مشہور کرنے کے ہونا چاہیے کہ پہلے اس سے سبب پوچھا جائے ممکن ہے اس کے پاس کوئی معقول عذر ہو______ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آپ سمیت کتنے ایسے لوگ جن کے درمیان مولانا ناظم صاحب کو بدخواہ مشہور کیا گیا سب کے سب بدگمانی کے گناہ میں مبتلا ہوئے۔ کوئی جواب ہے آپ کے پاس.......؟
🔘 یقیناً ایک سال مولانا ناظم علی صاحب نے چندہ نہیں کیا تھا مگر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ مولانا ناظم علی صاحب کی اہلیہ محترمہ کی طبیعت انتہائی علیل تھی ہسپتال میں تھیں، کیا ایسی کوئی صورت حال آپ کو پیش آتی تو آپ اپنے عزیز کو زندگی اور موت کے درمیان چھوڑ کر چندہ کرنے نکل کھڑے ہونے کا حوصلہ کر پاتے........؟
🔘 *پورا ادارہ اور اس کے منتظمین اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا ناظم علی صاحب نے آنے سے پہلے ہی چندے کی ذمے داری سے استعذار کیا تھا جو کہ قبول بھی کیا گیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے چندہ کیا اور کررہے ہیں کیا اسی کا نام بدخواہی ہے........؟* ________ *مدرسے میں چوبیس گھنٹے رہ کر بچوں کی نگہداشت کرنا ، مسجد میں اگر اذان نہ ہوئی ہو تو اذان کہہ دینا، نماز پڑھا دینا، کیا اسی کا نام بدخواہی ہے....؟* کسی بھی جہت سے مولانا ناظم علی صاحب کی بد خواہی ثابت نہیں ہوتی پھر بھی اگر انہیں بدخواہ کہا جارہا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش ہے۔ تو کیا آپ کے لیے جائز ہے کہ آپ ان سازشیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائیں...........؟
🔘 تدریس میں غیر ذمے داری برتنے جیسے الزامات کی حقیقت کیا ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں اور نہیں جانتے ہیں تو طلبہ سے معلوم کرسکتے ہیں ایسی بے بنیاد باتوں کی عوام کے درمیان تشہیر کی گئی جبکہ اس پر کوئی دلیل و ثبوت کسی پاس نہیں ہے تو ماننا پڑے گا کہ ایسی جھوٹی باتیں اڑانے والوں کی نیت خیر نہیں ہے ________ اوقات تعلیم میں تدریس چھوڑ کر مہمان نوازی کرنے کا الزام بھی بے بنیاد ہے جس کی گواہی میں اور میرے جیسے کثیر تعداد میں فارغین دینے کے لیے تیار ہیں ، مہمان نوازی ہوتی ہے مگر تدریس چھوڑ کر نہیں اور *اگر مطلقاً مہمان نوازی ہی جرم ہے تو اس جرم میں صرف مولانا ناظم صاحب ہی نہیں بلکہ دیگر اساتذہ بھی ملوث ہیں جس کے گواہ بھی موجود ہیں۔*
🔘 بد مذہبوں سے تعلقات کا الزام لگایا گیا_____ یقیناً میرے مخاطب علمائے تنویر ہیں جو اس بات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ بد مذہبوں سے کس طرح کے تعلقات کی ممانعت ہے اور کیسے تعلقات جائز........ آخر کس طرح کے تعلقات کی بات کی جارہی ہے؟ *اگر آپ مطلقاً تعلقات کی ممانعت کی بات کررہے ہیں تو صرف مولانا ناظم علی صاحب کی بات کیوں کریں (اگرچہ انہیں کسی بھی طرح کے تعلقات میں ملوث نہیں پایا گیا) نام بہ نام کئی اساتذہ کو میں شمار کرا سکتا ہوں جن کے بد مذہبوں سے تعلقات ہیں اور جس طرح کے تعلقات ہیں وہ بھی قابل گرفت ہو سکتے ہیں، اور اس پر شاہد بھی حاضر خدمت کرسکتا ہوں* ۔ اب آپ خود غور کریں کیا کسی ایسے شخص کو حق ہے کہ وہ کسی پاکدامن شخص پر اس طرح کے کیچڑ اچھالے جس کا دامن خود ہی داغ دار ہو...........؟
🔘 مولانا ناظم صاحب کے ساتھ غبن کیا گیا اور غبن کرنے والا آپ کے سامنے موجود ہے سارے ثبوت اس کے خلاف موجود ہیں اس سے پہلے بھی وہ شخص گھوٹالے بازی میں ملوث پایا گیا ہے______ کیا آپ کے پاس اس پر کوئی ثبوت ہے کہ اس نے غبن نہیں کیا ہے؟ اگر نہیں ہے تو آپ نے اب تک کیا کیا؟ شخص مذکور کو آڑے ہاتھوں کیوں نہیں لیا؟ *مولانا ناظم علی صاحب مدعی ہونے کی حیثیت سے شواہد پیش کررہے ہیں جو کہ بالکل واضح ہیں کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے پھر بھی اگر آپ کو قبول نہیں ہے تو آپ منکر ہونے کی حیثیت سے حلفیہ بیان دیں جیسا شریعت کا حکم ہے* .............. مگر آپ کی جانب سے ٹال مٹول کی مدت میں توسیع ہوتی جارہی ہے اسے کیا نام دیا جائے؟ کیا اسے یہ سمجھا جائے کہ آپ خود ہی اس نزاعی معاملے کی طوالت کے خواہاں ہیں ؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں ؟
🔘 بجائے نزاعی معاملے کو رفع کرکے پر امن فضا قائم کرنے کے آپ مسلسل اس کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں *مولانا ناظم صاحب اپنے کچھ ضروری کاغذات کا مطالبہ کر رہے ہیں (جس کا تذکرہ میں نے ساتویں قسط میں کیا ہے) آپ کیوں دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ بلکہ بذریعہ نوٹس دینے سے انکارکر رہے ہیں* کیسے اس معاملے میں آپ کا دامن صاف مان لیا جائے کیسے......؟
🔘 آپ نے مولانا ناظم صاحب پر ابھی چند روز پہلے یہ الزام لگایا کہ انہوں نے کہا ہے کہ *،،میں مدرسہ نہیں چلنے دوں گا،،* اور مولانا ناظم صاحب اس بات سے منکر ہیں اور حلفا اور قسما اس بات کے منکر ہیں کہ انہوں نے ایسا جملہ استعمال کیا ہے بلکہ ان کا جملہ یہ ہے *،،میں اب غلط نہیں ہونے دوں گا مولانا صاحب! اب وہی کرنا ہوگا جو صحیح ہوگا،،* _____ *اب آپ خود ہی بتائیں ایسی صورت میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ یہی نا کہ آپ مدعی ہیں تو بینہ پیش کریں اور اگر نہیں تو مولانا ناظم صاحب سے قسم لیں اور مولانا ناظم صاحب ہر وقت حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں_______ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا آپ اللہ و رسول (جل جلالہ ﷺ) کو حاظر و ناظر مان کر مولانا ناظم کے ساتھ قسم کھاسکتے ہیں.....؟؟؟* یقیناً نہیں کھا سکتے کیوں کہ آپ بھی جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ حق و صداقت کا علم کس کے ہاتھ میں ہے، یقینا دنیا کو آپ آخرت پر ترجیح نہیں دیں گے۔
میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں
🔘 ایک مرتبہ آپ اس پر بھی ضرور غور کریں کہ اب تک کے اختلافات سے کیا سود مند نتیجہ حاصل ہوا؟ کچھ بھی نہیں _______ *ہاں اتنا ضرور ہوا ہوگا کہ طلبہ کو تعلیم وتدریس میں روکاوٹ پیدا ہوئی ہوگی ، انکے ذہن انتشار کا شکار ہوئے ہونگے، تعلیمی نظام درہم برہم ہوا ہوگا، دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط ٹھہرا رہے ہونگے اور معاذ اللہ بدگمانی کے گناہ میں بھی مبتلا ہونگے، علاقے میں گروپ بندی ہوئی ہوگی، ادارے سے اعتماد اٹھ گیا ہوگا، وغیرہ وغیرہ* ۔
🔘 آخر ان سب کا ذمے دار کون ہے ؟ یقیناً حزب مخالف کے لوگ ہیں وہ اس طرح کہ *جب مولانا ناظم علی صاحب کی طرف سے امن وامان کی بحالی کی طرف پیش قدمی ہورہی ہے تو آپ سب معاملے کو طول دینے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اگر آپ یقیناً ادارے کے خیر خواہ ہیں اور اس کی بہتری چاہتے ہیں تو دیر کس بات کی چند معزز شخصیات کو اکھٹا کرکے سارے معاملات و مسائل سامنے رکھ کر شرعی طریقے سے حل کر لیا جائے اور پھر جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے تو حقدار کو اس کا حق اور مجرم کو قانون کے حوالے کردیا جائے۔*
🔘 یقیناً آپ سب اہل علم ہیں آپ کو کچھ سمجھاتے ہوئے خود شرمندگی ہوتی ہے مگر کبھی کبھی چھوٹا بڑے کو احساس دلاتا ہے اور بڑا اپنے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بات قبول بھی کرتا ہے *،،اگر اختلافات ختم ہی کرنا ہے اور پرامن فضا کا قیام چاہتے ہیں تو امام حسن و أمیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرلیں اس بہتر کوئی اور صورت نہ ہوگی،،* ادارے کی ترقی اور اس کی بہتری کے لیے اگر کچھ جھکنا ہی پڑے تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے *اگر اس اختلاف کی باعث زیر تعلیم بچوں کا مستقبل خراب ہورہاہے تو یقین جانیں کل بروز قیامت جواب دہی بھی کرنی پڑے گی جس کی طاقت کسی کے اندر نہیں ہے۔* سارے معاملات و واقعات آپ کے سامنے پیش ہیں سنجیدگی سے غور کریں اگر اب بھی آپ طول دینے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ کی ادارے کے تئیں خیرخواہی پر سوالیہ نشان ہے..............
🔘 *ساتھ ہی اہل امرڈوبھا اور قرب و جوار کے مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ خدارا کسی گروپ بندی کے بجائے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ ہمارا اپنا ادارہ ہے ہماری شان اور پہچان ہے ہمارا اور ہمارے بچوں کا اچھا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے ، اگر ہمارے اس عظیم ادارے کو خدا نخواستہ کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ہم کہیں منھ دکھانے کے لائق نہیں بچیں گے ، آج بھی لوگ اپنے علاقے میں مدرسوں اور اداروں کے قیام کے لیے چندے مانگتے پھرتے ہیں اور بنا بھی لیں تو اس کو تنویر الاسلام جیسی بلندی دیتے دیتے سالوں لگ جاتے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ ہمارے پاس بنا بنایا ادارہ ہے اگر ہم اس کو بھی کھو دیں گے تو ہم سے بڑا محروم کوئی اور نہ ہوگا لہٰذا کوشش کرکے سارے اختلافات ختم کرکے ادارے کو مزید ترقی کی ڈگر پر لے چلیں اور اتنی بلندی دینے کی کوشش کریں کہ ہم اور آنے والی نسلیں فخر کر سکیں اللہ سے دعا ہے کہ آپ کی کوششیں رائیگاں نہ جانے پائیں آمین۔
کس کو معلوم ان اشکوں کی حقیقت اے دوست
روح کی سمت جو آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں
سرمایہ حدیث اور ہماری لاپروائیاں
امانت اعلی حضرت کی شاعری میں صنائع بدائع
مسلم قوم اور طبی نمائندگی۔۔۔۔
1: دینی و عصری علوم کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ قوم مسلم دو طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ایک وہ جو عصری علوم کو ہی راہ فلاح سمجھتا ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت خالص مغربی تہذیب کے زیر اثر کرتا ہے جس کا نتیجہ الحاد و لادینیت کی صورت میں نکلتا ہے اور (معاذ اللہ) ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا بچہ قرآن وحدیث کو سمجھنا تو دور اس کو محض قدامت پسندوں یا ملوں کی کتاب سمجھتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن ،، تبیان لکل شئی،، اور جمیع علوم بشمول دنیاوی و عصری علوم کا مرجع و ماخذ ہے۔
اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو عصری علوم کے متعلق منفی خیالات رکھتا ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کی نقیض اور لادینیت کی طرف لے جانے والا سمجھتا ہے اور اپنی اولاد کے ذہن و فکر میں اس کے تئیں نفرت ڈال دیتا ہے جس کا نتیجہ بایں صورت سامنے آتا ہے کہ وہ دنیا کے بڑھتے ہوئے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل پاتا اور یہی پس ماندگی کا سبب بن جاتا ہے،...... غرضیکہ دونوں ہی طبقے صحیح راستے سے بھٹک کر قوم کی ترقی کی راہ میں حائل ہورہے ہیں، لہذا سب سے پہلے دینی و دنیاوی علوم کے مابین حائل بعد کو قرب میں تبدیل کرنا ہوگا اور دونوں طرح کی ذہنیت کے مابین غلط فہمی کی دیوار کو توڑ کر عوام کے اندر مقتضائے حال کے مطابق اور عصری تعلیم سے ہم آہنگ تعلیمی بیداری لانی ہوگی۔
2: اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی ابتدائی دینی تعلیمات کو لازمی قرار دینے کے ساتھ اردو پڑھنے اور سمجھنے نیز کم از کم عربی پڑھنے کا معقول انتظام کیا جانا چاہیے تاکہ
3: موجودہ نصاب تعلیم میں ترمیم وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ خواہی نہ خواہی اس حقیقت سے منھ نہیں چرایا جا سکتا کہ درس نظامی کا موجودہ نو سالہ کورس اور تعلیمی نصاب طلبہ کے لیے بار گراں ہونے کے ساتھ خاطر خواہ نتیجہ خیز بھی نہیں رہا اور نہ ہی یہ وقت کی ضرورت پوری کرنے کو کافی ہے، تعلیم جاری رکھنے کے خواہشمند فارغین مدارس کے لیے تسلسل و ربط باقی رکھنا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ آنے والی راہیں ان کے لیے اجنبی و وحشتناک ہوتی ہیں.......... لہذا یہ ایسی ترمیم کا متقاضی ہے جس سے طالبین کو اہداف تک پہونچنے میں راستہ تبدیل کرنے کی چنداں حاجت نہ ہو۔
4: مدارس میں علم طب کا خصوصی نصاب ترتیب دیا جائے نیز تعلیم کے ساتھ تجربے کی سہولیات کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے اور اس کے لیے لیبارٹریز کا قیام ازحد ضروری ہے۔
5: مدارس کا کسی بڑی یونیورسٹی سے الحاق کیا جائے تاکہ طالبین کو اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے دقت و مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
6: بڑی یونیورسٹیوں میں مسلم ریزرویشن سیٹوں میں اضافے کے لیے سعی کرنی پڑے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلم طلبہ کا ایڈمیشن ہوسکے۔
7: مدارس اور دیگر اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم مسلم طلبہ کی بروقت اور صحیح رہنمائی اور انہیں ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے کوئی معقول انتظام ہونا چاہیے تاکہ طلبہ حالیہ کورسز کی تکمیل کے بعد آئندہ کی تعلیم کے منصوبے بلا شش و پنج کے اور بآسانی تیار کرسکیں کیونکہ طلبہ کے لیے یہ بھی ایک بڑی پریشانی ہوتی ہے اور صحیح رہنمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر طلبہ کش مکش کے شکار ہوتے ہوئے یا تو تعلیمی سلسلے کو منقطع کر دیتے ہیں یا پھر غلط انتخاب کے باعث اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے۔
8: مسلم غریب طبقے میں ڈھیروں تعداد ایسی ملے گی جو علمی تشنگی ، اعلی ذہنی اور علمی صلاحیت کے باوجود محض ناداری اور مفلسی کی وجہ سے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں تو ایسے طلبہ کی تعلیم کا کوئی ایسا بندوبست کیا جانا چاہیے جس سے وہ اپنے اخراجات بآسانی اٹھا سکیں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔
راقم : محمد برہان الدین ربانی مصباحی مبرم