🌷اپنی بات🌷
تعارف
- نام : محمد برهان الدین ربانی مصباحی
- ولادت:٢٦ اگست ١٩٩٦ء
- والدکا نام: مولانا محمد صلاح الدین چشتی
- آبائی وطن و سکونت
- مقام: ہردی
- پوسٹ: بکھرا
- بلاک: بگھولی
- تحصیل: خلیل آباد
- ضلع: سنت کبیر نگر
- پن کوڈ : ٢٧٢١٩٩
- صوبہ: اترپردیش
- ملک: ہندوستان
- تعلیم
ابتدائی تعلیم: درجات تحتانیہ ١,تا ٥,والد محترم کے پاس پھر درجات نظامیہ میں سےدرجۂ اعدادیہ اور درجۂ اولی بھی انہیں کے پاس رہ کر مکمل کیا اس کے بعد درجۂ ثانیہ سے درجۂ سادسہ(عالمیت)تک دارالعلوم أہل سنت تنویر الاسلام قصبہ امرڈوبھا بکھرا سنت کبیر نگر یوپی میں رہ مکمل کیا سند عالمیت کے حصول کے بعد تکمیل فضیلت کے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں درجۂ فضیلت کی تعلیم حاصل کرکے سند فضیلت حاصل کیا
خدمات
بعد فراغت تدریسی کام شروع کیا اور ایک سال تک صوبہ راجستھان کے ضلع باڑمیر میں تدریسی فرائض کو انجام دے کر دوسرے سال راجستھان ہی کے ایک ضلع بھیلواڑہ میں رہ کر تدریسی فرائض کی انجام دہی کی۔
اور فی الحال (٢٠١٩ ) راجستھان ہی کے شہر جے پور میں تدریس سے متعلق ہوں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
عہد طفولیت سے ہی نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کا شوق تھا اکثر گنگناتا رہتا تھا کبھی کہیں سے کچھ اشعار یا کوئی مصرع پڑھ لیا یا سن لیا تو وہ ورد زباں ہوجاتا تھا کبھی کبھی کوئی ٹوک دیا کرتا تھا کہ ایک ہی شعر یا مصرع بار بار کیوں پڑھے جارہے ہو پوری نعت نہیں پڑھ سکتے تو اس وقت میرے لیے پریشانی کھڑی ہوجاتی کہ پوری نعت یا اسی کے کچھ اور اشعار کیسے ملیں تلاش و جستجو کے بعد کبھی مل جاتے کبھی نہیں ملتے اسی طرح ایک مرتبہ کہیں سے ایک مصرع سن لیا تھا
ع صدیاں ہوئیں کہ آئے تھے موسم بہار کے
اب مجھے تو اتنا یاد نہیں رہا تھا کہ یہ میں نے کہاں؟ کس وقت ؟ کیسے سنا؟ البتہ میری زبان پر غیر ارادی طور پر جاری تھا مجھے احساس اس وقت ہوا جب میرے دوست نے کہا : یار کبھی سے سن رہا ہوں بس وہی ایک مصرع پڑھے جارہے ہو آگے بھی تو پڑھو ۔ میں نے کہا : دوست یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم کہ یہ ہے کیا بلا؟ کہاں سے سنا ؟ کب سے پڑھ رہا ہوں؟ اور اس کے آگے کیا ہے؟ کچھ دیر تک اسی موضوع پر مذاق ہوتا رہا پھر ہم نے کہا کہ چلو اس کا دوسرا مصرع بنانے کی کوشش کریں ۔ کافی کوششوں کے بعد میں نے ٹوٹا پھوٹا ایک مصرع تیار کیا(چونکہ وہ وقت بچپن کا تھا صحیح اور غلط کی تمیز نہیں تھی تو جو مصرع بنایا تھا وہ ہم وزن تو تھا البتہ معنی خیز نہ تھا نہ ہی تذکیر و تانیث کا لحاظ۔۔۔۔۔ ہاں بعد میں اس شعر کی خود ہی اصلاح کرلیا تھا) تو شعر اب کچھ اس طرح بن چکا ہے
ہے اب خزاں ہویدا بہر لمحۂ حیات
صدیاں ہوئیں کہ آئے تھے موسم بہار کے
لیکن دوست نے کافی سراہا جس سے میرے اندر ایک نئی فکر نے جنم لیا کہ میں بھی اشعار کہہ سکتا ہوں پھر جب بتوفیق الہی کچھ علم سے روشناس ہوا تو دو ایک شعر کہنے کی کوشش کرتا مگر کافی دقت ہوتی تھی میں نے سوچ لیا کہ یہ مجھ سے نہ ہوپائے گا اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیوں اور کیسے میرے اندر نعت رسول لکھنے کی خواہش پیدا ہوتی اور لکھنا شروع کرتا تو لکھ دیتا لکھنے کے بعد خود پر حیرت ہوتی اور یقین ہی نہیں آتا کہ یہ میں نے لکھا اور آج بھی سوچتا ہوں کہ میں نے یہ کیسے لکھا جبکہ آج بھی میں خود کے اندر اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ لکھ سکوں یہی حقیقت ہے نہ ہی یہ میری عاجزی ہے اور نہ ہی کسر نفسی خدا گواہ ہے فقط